سوال:
ہماری کمپنی ہر سال قرعہ اندازی کے ذريعہ دو لوگوں کو حج پر بھيجتی ہے، ليکن اس کی شرط يہ ہے کہ حکومتی قرعہ اندازی ميں بھی نام آئے، ہر سال حکومتی قرعہ اندازی ميں نام نہ آنے کی وجہ سے کئی لوگ اس سال نہيں جا سکتے اور ریٹائر ہو جاتے ہيں اور حج کے لئے مختص پيسے ضائع ہو جاتے ہيں۔
اس ضمن ميں انتظاميہ کے کچھ لوگوں نے فيصلہ کيا کہ اُن خوش نصيبوں کو جن کا نام کمپنی کی حج قرعہ اندازی ميں آتا ہے انہيں یہ رقم اس نيت سے دے دی جائے کہ وہ اس رقم سے اپنے طور پر پرائيويٹ حج کر ليں اور اضافی رقم جو لگے وہ اپنے پاس سے خرچ کرليں۔
کیا اس طريقے سے کمپنی کے مالکان اس ثواب کے مستحق ہوں گے جو کسی کو حج پر بھيجنے پر چواب ملتا ہے؟ اور اگر پيسے لينے کے بعد وہ ملازم حج پر نہ جائے اور ان پيسوں کو اپنے کسی اور کام ميں استعمال کر لے تو کيا اس صورت ميں بھی کمپنی ثواب کی مستحق ہوگی؟
جواب: دین اسلام کا ایک حسن یہ بھی ہے کہ جو آدمی کسی نیک کام میں دوسرے کا تعاون یا رہنمائی کرتا ہے تو وہ بھی ثواب کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اسی وجہ سے کمپنی اگر حج کرنے کے لیے کسی ملازم کو پیسے دے تو اس حج کا ثواب کمپنی مالکان کو بھی ہوگا، چاہے بعد میں ملازم حج کرے یا نہ کرے، البتہ اگر کمپنی نے وہ پیسے ملازم کی ملکیت میں دیدیئے ہیں تو بھی ملازم کیلئے ان پیسوں کو حج میں ہی استعمال کرنا بہتر ہے، حج کے لیے دیے گئے پیسوں کو بلاوجہ کسی اور کام میں استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح مسلم: (1506/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دل على خير فله مثل أجر فاعله
مصنف ابن ابی شیبة: (230/4، ط: مکتبة الرشد)
عن زيد بن خالد الجهني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من فطر صائما أو جهز غازيا أو حاجا أو خلفه في أهله كان له مثل أجورهم من غير أن ينتقص من أجورهم شيئا.
شرح صحیح البخاری لابن بطال: (51/5، ط: مکتبة الرشد)
كل من أعان مؤمنًا على عمل بر فللمعين عليه أجر مثل العامل، وإذا أخبر الرسول أن من جهز غازيًا فقد غزا، فكذلك من فطر صائمًا أو قواه على صومه، وكذلك من أعان حاجا أو معتمرًا بما يتقوى به على حجه أو عمرته حتى يأتى ذلك على تمامه فله مثل أجره.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی