سوال:
کہا جاتا ہے کہ جو بچے بچپن میں مر جاتے ہیں وہ قیامت کے دن اپنے والدین کی شفاعت کریں گے۔ ایک (مشتبہ) ناجائز مسلم بچہ جو بچپن میں مر گیا ہو، اس کی کیا حیثیت ہوگی؟
جواب: جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمارے دینِ اسلام میں ایک صالح پاکیزہ اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے مسلمانوں کی عفت وعصمت کا بہت خیال رکھا گیا ہے، مسلمانوں کی عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے ان کے نسب کی حفاظت کو ضروری قرار دیا گیا ہے اور نسب کی حفاظت کا دار و مدار نکاح جیسے پاکیزہ رشتے پر ہے، کیونکہ اس کے ذریعے ہونے والی اولاد ثابت النسب ہوگی اور زندگی کے بیشتر عائلی مسائل مثلاً: محارم، نکاح، کفاءت اور وراثت وغیرہ کا تعلق اسی نسبی اولاد سے متعلق ہوگا، جبکہ اس کے برعکس وہ اولاد جو نکاح کے بغیر زنا جیسے گھناؤنے گناہ کے ذریعے پیدا ہوگی، اول تو اس کا نسب ہی زانی سے ثابت نہیں ہوگا، بلکہ وہ "ولد الزنا" (حرامی) کہلائے گی، چنانچہ جب اس کا نسب ہی ثابت نہیں ہوگا تو وہ نسب کے نتیجے میں حاصل ہونے والی مراعات کی نہ وہ خود مستحق ہوگی اور نہ ہی زانی مستحق ہوگا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "زنا کار کے لیے تو صرف پتھر ہی ہیں"۔(صحیح بخاری: حدیث نمبر: 6818) یعنی اس کو کچھ نہیں ملے گا اور اگر زانی شادی شدہ ہو تو سنگسار کیا جائے گا۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد یہ جاننا چاہیے کہ بچپن میں وفات پانے والے بچوں کا آخرت میں اپنے والدین کے لیے شفاعت کرنادراصل یہ والدین کو اس صدمے پر بطورِ انعام اس نعمت اور فضیلت کے لیے مستحق ٹھہرایا گیا ہے اور یہ بات ہر عقل مند شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ انعام انہی بچوں کے ذریعے حاصل ہو گا جو نکاح کے ذریعے حلال طریقے سے پیدا ہوئے ہوں گے، جبکہ وہ بچے جو زنا جیسے گھناؤنے گناہ کے نتیجے میں حرام طریقے سے پیدا ہوئے ہوں، ان کا تو اس مرد سے نسب ہی ثابت نہیں ہے، جب شریعت نے ان کو اس زانی کی اولاد میں شمار ہی نہیں کیا ہے تو وہ آخرت میں شفاعت کا ذریعہ کیونکر بن سکتے ہیں؟!
نیز زانی کا ایسے بچے کی وفات پر یہ امید رکھنا کہ وہ اس کے لیے آخرت میں شفاعت کرے گا، بجائے خود ایک بہت بڑی جسارت ہے، کیونکہ ایک تو اس نے زنا جیسے گناہ کا ارتکاب کیا ہے اور پھر اس پر یہ تمنا کرنا کہ اس کا "ولد الزنا" اس کے لیے ذخیرہ آخرت بنے گا، یہ کس قدر ڈھٹائی کی بات ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح البخاري: (كتاب الحدود، باب للعاهر الحجر، رقم الحديث: 6818، 165/8، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا آدم ، حدثنا شعبة ط، حدثنا محمد بن زياد، قال: سمعت أبا هريرة، قال النبي صلى الله عليه وسلم: "الولد للفراش، وللعاهر الحجر".
تکملة البحر الرائق: (574/8، ط: دار الکتاب الاسلامی)
قال - رحمه الله - (ويرث ولد الزنا واللعان من جهة الأم فقط) ؛ لأن نسبه من جهة الأب منقطع فلا يرث به ومن جهة الأم ثابت فيرث به أمه وأخته من الأم بالفرض لا غير.
مرقاة المفاتیح: (2166/5، ط: دار الفکر)
الولد للفراش) يعني: الولد يتبع الأم إذا كان الوطء زنا، هذا هو المراد هاهنا، وإذا كان والده وأمه رقيقين أو أحدهما رقيقا، فالولد يتبع أمه أيضا (وللعاهر الحجر) : أي: وللزاني الحجارة بأن يرجم إن كان محصنا، ويحد إن كان غير محصن، ويحتمل أن يكون معناه الحرمان عن الميراث والنسب، والحجر على هذا التأويل كناية عن الحرمان، كان يقال للمحروم: في يده التراب والحجر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی