سوال:
مسجد نبوی ﷺ سے متعلق یہ کہنا کہ"یہ وہ در ہے جہاں سے کوئی خالی واپس نہیں آتا" ٹھیک ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہم تو اللہ سے مانگتے ہیں۔ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کی قدرت و ارادے کے بغیر کوئی کسی کو ذرہ برابر نفع یا نقصان نہیں پہنچا سکتا، کیونکہ سب انسان (خواہ نبی ہو یا غیر نبی) اللہ تعالیٰ کے بندے اور اسی کے محتاج ہیں۔ یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں اگر روضہ اقدس کی تصویر پر لکھے گئے جملے "یہ وہ در ہے جہاں سے کوئی بھی خالی نہیں آتا" سے مراد یہ ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی (نعوذ باللہ) اللہ سبحانہ و تعالی کی طرح ہر بات پر قدرت رکھتے ہیں اور روضہ اقدس پر آنے والے ہر شخص کو بذات خود نفع پہنچاتے ہیں تو چونکہ یہ شرکیہ عقیدہ ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا لازم اور ضروری ہے۔
لیکن اگر مذکورہ جملے کا مطلب یہ ہو کہ روضہ اقدس پر حاضری دینے والا مسجد نبوی میں نیک اعمال (مثلاً: نماز، درود شریف، تلاوت، ذکر واذکار، دعائیں وغیرہ) کرتا ہے اور جو شخص بھی یہ اعمال اخلاص سے کرتا ہے اسے ضرور اجر ملتا ہے تو شرعاً یہ معنی مراد لینے میں کوئی خرابی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح الفقه الأكبر: (ص: 39، ط: قدیمی کتب خانہ)
ومعنی ارادته فعل غیرہ انه أمر به فانه تعالیٰ مرید بارادته القدیمة ما کان وما یکون، فلا یکون فی الدنیا، ولا فی الأخری صغیر أو کبیر، قلیل أو کثیر، خیر أو شرّ، نفع أو ضرّ، حلو أو مرّ، ایمان أو کفر، عرفان أو نکران، فوز أو خسران، زیادۃ أو نقصان، طاعة أو عصیان، الا بارادته ووفق حکمته وطبق تقدیره وقضائه فی خلیقته، فما شاء اللہ کان وما لم یشأ لم یکن، فھو الفعّال لما یرید کما یرید لا رادّ لما اراد ولا معقّب لما حکم فی العباد ولا مھرب عن معصیته الا بارادته ومعونته ولا مکسب لعبد فی طاعته الا بتوفیقه ومشیته فلا حول ولا قوّة الا باللہ، ولا مَنجأ ولا ملجأ منہ الا الیه.
ولو اجتمع الخلق علی أن یحرّکوا فی العالم ذرّة أو یسکونھا مرة بدون ارادته لما قدروا علی ذلک، بل ولا أرادوا خلاف ما ھنالک کما قال اللہ تعالیٰ: (وما تشاؤون الا ان یشاء اللہ) فھو سبحانه لم یزل موصوفاً بارادته ومریدا فی الأزل وجود الأشیاء فی أوقاتھا التی قدّرھا فوجدت فیھا کما علمھا وأرادھا وقدّرھا من غیر تقدّم ولا تأخر وتبدّل وتغیّر.
حاشية الطحطاوى على مراقي الفلاح: (ص: 693، ط: دار الكتب العلمية)
ومنها أنه إن ظن أن الميت يتصرف في الأمور دون الله تعالى كفر.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص کراچی