سوال:
گھر میں ساس، بیوی اور شوہر کا جھگڑا چل رہا تھا، ایسے میں بیوی غصے میں خود اور دونوں بچوں کو اوپر لے جا کر اپنے کمرے کا دروازہ اندر سے بند کردیتی ہے اور جب شوہر نماز کے لیے کمرے میں نماز پڑھنے آنے کے لیے کہتا ہے اور دروازے کھولنے کے لیے کہتا ہے تو بیوی کہتی ہے کہ "نہیں کھولتی دروازہ"، "نہیں پڑھنے دوں گی نماز"، "نہیں پڑھنے دیتی نماز جاؤ"، پھر شوہر بیوی کے اس جملہ پر اسے تنبیہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ سوچ سمجھ کے الفاظ استعمال کرو اور پھر دروازہ کھولنے پر اصرار کرتا ہے تو بیوی کہتی ہے کہ نیچے جا کر پڑھ لو نماز، نیچے بھی پڑھ سکتے ہو نماز" تو کیا بیوی کے ایسا کہنے سے کفر لاحق ہو گیا ہے؟ حالانکہ بعد میں بیوی کہتی ہے کہ اس کا ارادہ ایسا بالکل نہیں تھا، وہ بس غصے میں کمرے میں نماز نہیں پڑھنے کا کہہ رہی تھی۔
جواب: نماز پڑھنا اللہ تعالیٰ کا قطعی حکم ہے، اس کی فرضیت کا انکار کرنا یا اس کے نہ پڑھنے کو جائز سمجھنا یا اس کا مذاق اُڑانا موجب کفر باتیں ہیں، البتہ سوال میں پوچھی گئی صورت میں خاتون نے چونکہ نماز کی فرضیت کا انکار نہیں کیا ہے اور نہ ہی اس کے نہ پڑھنے کو جائز سمجھا ہے، اس لیے مذکورہ کلمات کہنے سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوئی، تاہم آئندہ کے لیے ایسے جملے زبان سے ادا کرنے میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاویٰ الھندیة: (268/2، ط: سعید)
وقول الرجل لا اصلی یحتمل اربعة اوجه؛ احدھا: لا اصلی لانی صلیت، والثانی: لا اصلی بامرک فقد امرنی بھا من ھو خیر منک، والثالث: لا اصلی فسقا مجانة، فھذہ الثلاثة لیست بکفر،
والرابع: لا اصلی اذ لیس یجب علي الصلاۃ و لم اومر بھا، یکفر، ولو أطلق وقال لا أصلی لا یکفر لاحتمال ھذہ الوجوہ۔
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی