سوال:
اگلے دو مہینوں میں نئی گندم مارکیٹ میں آجائیگی، کوئی بھی زرعی جنس جب نئی آتی ہے تو اس کی قیمت کم ہوتی ہے، میرے پاس اپنی ریٹائرمنٹ پر ملنے والی رقم موجود ہے، اگر اس رقم سے میں شروع کے وقت میں گندم کی کچھ مقدار اس نیت سے خرید کر رکھ دوں کہ کچھ مہینے بعد جب مارکیٹ میں اس کی قیمت بڑھ جائیگی (جو کہ عام طور پر بڑھتی ہے) تو میں اس وقت بیچ کر منافع کماؤں۔
میرا سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح سے کمائی ہوئی رقم کہیں ناجائز منافع خوری کے زمرے میں تو نہیں آئیگی؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں مندرجہ ذیل دو شرائط کے ساتھ آپ کا گندم خرید کر اسے ذخیرہ (Stock) کرنا جائز ہے:
۱) بازار میں گندم عام طور پر دستیاب ہو۔
۲) گندم کی قیمت میں غیر معمولی اضافہ آپ کے ذخیرہ (Stock) کرنے کی وجہ سے نہ ہو رہا ہو، بلکہ یہ اضافہ مارکیٹ کے فطری اتار چڑھاؤ یعنی طلب و رسد (Demand and Supply) کی بنیاد پر ہو رہا ہو۔
اگر ان میں سے ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو یہ اسٹاک کرنا "احتکار" یعنی ذخیرہ اندوذی میں شامل ہوگا، جس کو ناجائز اور موجب لعنت قرار دیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابن ماجة: (باب الحکرة و الجلب، 156/1، ط: مکتبة تھانوی دیوبند)
عن عمر بن الخطاب قال: قال رسول اللّٰه صلی الله علیه وسلم الجالب مرزوق والمحتکر ملعون
فقه البیوع: (998/2، ط: مکتبة معارف القرآن)
وخص معظم الفقهاء النهي بالأقوات وعلف الدواب إن أضر ذلك بأهل البلد. وروي عن محمد رحمه الله تعالى أنه ممنوع فى الثياب أيضاً. وعن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه ممنوع في كل ما أضر بالعامة وهو مذهب المالكية. فنقل الحطاب عن الإمام مالك رحمه الله تعالى أنه قال: " والحكرة في كل شيء من طعام، أو إدام، أو كتان، أو صوف، أو عصفر، أو غيره. فما كان احتكاره يضُر بالنّاس مُنع محتكره من الحكرة. وإن لم يضر بالناس ولا بالأسواق، فلا بأس به."
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی