عنوان: جمعہ کی نماز، عربی خطبہ، بیان اور رمضان المبارک کی راتوں میں بیانات مسجد کے باہر کے لاؤڈ اسپیکر پر کرنے کا حکم (10211-No)

سوال: ہمارے محلہ میں ایک مسجد ہے، جس میں جمعہ کی نماز، خطبہ، بیان اور رمضان میں راتوں میں بیان سب باہر کے مائک پر ہوتا ہے، جس سے آنے جانے والے لوگ، دوکان دار ،گھر میں مریض، بچے سب کو تکلیف ہوتی ہے، جبکہ باہر کے لوگ بے اعتنائی برتتے ہیں اور امام کو اس کا علم ہے اس کے باوجود مسجد کے اندرون کا مائیک کے ساتھ باہر کا مائک بھی استعمال ہوتا ہے، ایسے میں امام اور انتظامیہ کی کیا ذمہ داری ہے؟

جواب: واضح رہے کہ مسجد کی حدود سے باہر کے لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بوقت ضرورت اور بقدرِ ضرورت کرنا چاہیے۔ چونکہ جمعہ کی نماز اور عربی خطبہ میں مسجد کے حدود میں موجود نمازیوں تک امام کی آواز پہنچانا مقصود ہوتا ہے، لہذا امام کی آواز اس قدر ہونی چاہیے کہ مسجد کے حدود میں موجود نمازیوں تک بسہولت پہنچ سکے۔ اس کے لیے مسجد کے حدود کے باہر والے لاؤڈ اسپیکر بلا ضرورت استعمال کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ عموماً لوگ قرآن مجید کی تلاوت اور عربی خطبہ کی طرف توجہ نہیں دیتے اور اس سے قرآن مجید کی بے حرمتی ہوتی ہے، جس کا وبال باہر کے لاؤڈ اسپیکر کھولنے والوں پر ہوگا۔
البتہ جمعہ کا بیان چونکہ اہل محلہ کو بھی سنانا مقصود ہوتا ہے، تاکہ ہفتے میں ایک مرتبہ لوگوں تک دین کی باتیں پہنچ سکیں، لہذا اس کے لیے مسجد کے حدود کے باہر کے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ اس سے اہل محلہ کو اذیت نہ ہوتی ہو یا بیماروں کے آرام میں خلل واقع نہ ہوتا ہو۔
لیکن رمضان المبارک کی راتوں میں باہر کے لاؤڈ اسپیکر کے ذریعے بیانات کرنا جس سے اہل محلہ کے مریضوں کو پریشانی ہوتی ہو یا لوگوں کی نیند میں خلل آتا ہو، ہرگز جائز نہیں ہے، لہذا امام مسجد اور انتظامیہ کے لیے اس عمل سے بچنا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الفتاوی الهندية: (فصل في بيان واجب الصلاة، 316/5، 318، ط: دار الكتب العلمية)
لا يقرأ جهرا عند المشتغلين بالأعمال ومن حرمة القرآن أن لا يقرأ في الأسواق، وفي موضع اللغو كذا في القنية.
رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن ولا يمكنه استماع القرآن كان الإثم على القارئ ولا شيء على الكاتب، وعلى هذا لو قرأ على السطح في الليل جهرا يأثم، كذا في الغرائب.

الدر المختار مع رد المحتار: (546/1، ط: دار الفكر)
فروع: يجب الاستماع للقراءة مطلقا لأن العبرة لعموم اللفظ.
(قوله: يجب الاستماع للقراءة مطلقا): أي في الصلاة وخارجها لأن الآية وإن كانت واردة في الصلاة على ما مر فالعبرة لعموم اللفظ لا لخصوص السبب، ثم هذا حيث لا عذر؛ ... وفي الفتح عن الخلاصة: رجل يكتب الفقه وبجنبه رجل يقرأ القرآن فلا يمكنه استماع القرآن فالإثم على القارئ وعلى هذا لو قرأ على السطح والناس نيام يأثم اه أي لأنه يكون سببا لإعراضهم عن استماعه، أو لأنه يؤذيهم بإيقاظهم، تأمل.
وفي شرح المنية: والأصل أن الاستماع للقرآن فرض كفاية لأنه لإقامة حقه بأن يكون ملتفتا إليه غير مضيع وذلك يحصل بإنصات البعض؛ كما في رد السلام حين كان لرعاية حق المسلم كفى فيه البعض عن الكل، إلا أنه يجب على القارئ احترامه بأن لا يقرأه في الأسواق ومواضع الاشتغال، فإذا قرأه فيها كان هو المضيع لحرمته، فيكون الإثم عليه دون أهل الاشتغال دفعا للحرج، وتمامه في ط.

رد المحتار: (589/1، ط: دار الفكر)
ولم أر من تعقبه سوى السيد أحمد الحموي في رسالته: (القول البليغ في حكم التبليغ) بأنه صرح في السراج بأن الإمام إذا جهر فوق الحاجة فقد أساء أه والإساءة دون الكراهة ولا توجب الإفساد.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 635 Feb 03, 2023
jumma / juma ki namaz,arbi khutba,bayan or ramzan ul mubarak ki raato mein / me bayanat masjid k bahir loud speaker per / par karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Rights & Etiquette of Mosques

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.