عنوان: پلاٹ کی فائل سے متعلق چند سوالات(10228-No)

سوال: میرے پاس ایک پلاٹ کی فائل ہے جس کا میں اوریجنل الاٹی ہوں، کمپنی نے کچھ زمین بھی خرید لی ہے لیکن ابھی تک پلاٹنگ نہیں کی، اب اگلے مہینے میں پلاٹ نمبر الاٹ کرنے کے لئے کمپنی قرعہ اندازی کرے گی، اس قرعہ اندازی میں ان فائلز کو شامل کیا جائے گا جن کی واجب الادا قسطوں کی رقم کا 50 فیصد قرعہ اندازی سے پہلے جمع ہو جائے گا۔
میں 500000 روپے جمع کرا چکا ہوں اور قرعہ اندازی میں شامل ہونے کے لئے تقریبا 325000 مزید جمع کرنے ہوں گے، جو میں نہیں کروا سکتا۔ ۱س فائل کی موجودہ مارکیٹ ویلیو کے لیے مجھے رقم کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں آپ سے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
1) کیا میں یہ فائل اسی صورت میں بیچ سکتا ہوں؟
2) کیا میں یہ فائل بطور ضمانت رکھ کر اس فائل کی ادا شدہ رقم کے برابر یا اس سے کم یا زیادہ روپے قرض لے سکتا ہوں؟
3) کیا میں یہ فائل بطور ضمانت رکھ کر 725000 روپے قرض لے سکتا ہوں اور 325000 ادا کرکے پلاٹ نمبر کی قرعہ اندازی میں شامل ہوسکتا ہوں؟ اور ساتھ ہی قرض دینے والے سے اس فائل کو اسی کو بیچنے کا وعدہ بیع کر سکتا ہوں؟
4) کیا پلاٹ نمبر ملنے کے بعد فائل کو بیچا جا سکتا ہے؟
5) اگر اوپر والی تمام صورتیں ممکن نہیں تو جائز صورت کے بارے میں رہنمائی فرما دیں۔

جواب: 1) فائل کی خرید و فروخت در حقیقت پلاٹ کی خرید و فروخت ہوتی ہے، کیونکہ فائل پلاٹ کی نمائندگی کرتی ہے، لہذا اگر پلاٹ کی فائل فروخت کرتے وقت اس پلاٹ کے بارے میں طے کرلیا جاتا ہے کہ کس جگہ واقع ہے، اور کتنے گز/ مرلے کا ہے تو پھر اس کی فائل کو آگے بیچنا جائز ہے، لیکن اگر صرف فائل ہے، جس کے پیچھے پلاٹ نہیں یا پلاٹ تو ہے لیکن کچھ خاص جگہ (Location) متعین نہیں ہے کہ اس کی حدود اربعہ کیا ہیں؟ پلاٹ کونے پر ہے یا سامنے ہے؟ مین روڈ کے قریب ہے یا دور ہے؟(جیسا کہ سوال میں پوچھی گئی صورت سے معلوم ہورہا ہے) یہ صورت چونکہ بعد میں نزاع اور جھگڑے کا سبب بنتی ہے، کیونکہ پلاٹ کے ان منافع کے مختلف ہونے کی وجہ سے قیمت میں کمی زیادتی ہوتی ہے، جوکہ نزاع کا باعث بن سکتی ہے، اس لئے معاملہ شرعا درست نہیں ہے، نیز اس بات کا بھی احتمال ہے کہ سوسائٹی والوں نے پلاٹ کی تعداد سے زائد فائلیں فروخت کی ہوں تو یہ غیر مملوک کی خرید و فروخت کی ہوگی جو کہ شرعا جائز نہیں ہے۔
البتہ اگر سوسائٹی اتنی چھوٹی ہو کہ جہاں اگر صرف پلاٹ کے گز/میٹر طے کرلیے جائیں، باقی اس کی مکمل لوکیشن اور حدود اربعہ اس وقت ذکر نہ کئے جائیں، اور پلاٹ کی جگہ مختلف ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت میں بھی کوئی زیادہ فرق نہ آرہا ہو، نیز اس کی وجہ سے بعد میں تقسیم کے وقت کسی نزاع کا اندیشہ بھی نہ ہو، تو ایسے پلاٹ/فائل کو خریدنے کی گنجائش ہے۔
2) یہ صورت جائز ہے، بشرطیکہ قرضہ سودی نہ ہو، یعنی جتنا لیا جائے اتنا ہی واپس کیا جائے۔
3) اگر قرض سودی نہ ہو تو بہرصورت فائل کو گروی رکھ کر قرض لیا جاسکتا ہے، اور قرض دینے والے کے ساتھ اس فائل (پلاٹ) کو بیچنے کا الگ سے وعدہ بھی کیا جاسکتا ہے، بشرطیکہ دونوں معاملات آپس میں مشروط نہ ہوں۔
4) اس کا جواب شق نمبر 1 کے تحت ملاحظہ فرمالیں۔
5) جو صورت درست نہیں، اس کا درست طریقہ بھی اوپر ذکر کر دیا گیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

البحر الرائق: (315/5، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله و فسد بیع عشرۃ اذرع من دار لا اسھم) و ھذا عند ابی حنیفة و قالا ھو جائز کما لو باع عشرۃ اسھم من دار ۔۔۔۔ لانھا جھالة بایدیھما ازالتھا ۔۔۔ و الحمام و الارض کالدار کما فی البدائع.

الدر المختار مع رد المحتار: (545/4، ط: دار الفکر)
قوله: (و صححاہ الخ) قلتُ: و وجه کون الموضع مجهولا انه لم یبین انه من مقدم الدار او من مؤخرها و جوانبها تتفاوت قیمه فکان المعقود علیه مجھولا جھالة مفضیة الی النزاع فیفسد کبیع بیت من بیوت الدار

فقه البيوع: (376/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
وقد تباع قطعة من الارض مقدرة بالخطوات او الامتار، ولكن يترك تعيينها للمستقبل. وهذا يكون عادة في أرض واسعة تشتريها شركة ثم تبيع قطعاتها العامة الناس تقدر بالخطوات او الامتار فمثلا كل قطعة منها بقدر خمس متر ولكن لا يتعين محل تلك الخمس مائة عند الشراء وانما يتعين حسب التصميم الذى تعمله الشركة فيما بعد فالسوال هل يصح هذا البيع على انه بيع حصة مشاعة من تلك الارض الواسعة؟ وهل يجوز لمن يشتريها ان يبيعها الى اخر؟ وتخرج هذه المسئلة على ماذكره الفقهاء الحنفية من ان من باع عشرة اذرع غير معينة من دار فان هذا البيع فاسد عند الامام أبي حنيفة رحمه الله تعالى الجهالة القدر، فان جوانب الدار مختلفة الجودة، فتقع المنازعة في تعيين المبيع ۔۔۔ وعلى هذا، فان بيع قطعة غير معينة من جملة القطعات لايجوز عند الامام ابي حنيفة رحمه الله تعالي ويجوز عند صاحبيه. والظاهر انه ان كانت جهالة التعيين تفضي الى المنازعة، فالاخذ بقول الامام ابي حنيفة اولى وان لم تكن مفضية الى المنازعة، فقول الصاحبين اولى بالاخذ.

کذا فی تبویب فتاوی دار العلوم کراتشی: رقم الفتوی: 18/2251

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 669 Feb 08, 2023
plot ki file se / say mutaliq chand sawalat

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.