سوال:
ایک میسج موصول ہوا کہ ہم اپ ورک پلیٹ فارم سے ہیں کیا آپ ہمارے ساتھ آنلائن کام کرنا چاہتا ہیں؟
طریقہ کار پوچھا اور کام شروع کیا تو پتہ چلا کام صرف ووٹنگ کا ہے جس میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارم یا بڑے برینڈ کو ووٹ کرنا ہوتا ہے اور تین لگاتار ٹاسک پر 300 پاکستانی روپے اکاونٹ میں آجاتا ہے۔
میرے دو سوال ہیں:
اول: جب ووٹنگ کا ٹاسک دیا تو اس میں ایک ویلفئر ٹاسک بھی دیا گیا کہ وہ اس طرح کہ اگر آپ ہمیں کو ابھی چار ہزار پاکستانی روپے دیتے ہیں تو کچھ ہی دیر میں آپ کو پانچ ہزار موصول ہوجائیں گے جیسا کہ ہوا۔ بظاہر تو یہ سودی لین دین لگ رہا ہے مگر ایک سوال ذہن میں آیا کہ یہ معاملہ تو ہم غیر مسلم (امریکی) سے کر رہے ہیں اور ما بین مسلم اور غیر مسلم کے ربا متحقق نہیں ہوتا تو کیا یہاں بھی ایسا ہوگا؟ ہمیں رقم اگر چہ پاکستانی روپے میں ملتی ہے مگر یہ لین دین ایک غیر مسلم کمپنی سے ہورہی ہے کیا سود کہلائے گا یا نہیں؟
دوسرا سوال: جب وہ ہمیں ووٹ کرنے کا کہتے ہیں تو جس میں سوشل میڈیا ویب سائٹ یا ڈرامہ ٹی وی چینلز یا جوتے وغیرہ کہ برانڈز کو ووٹ کرنا ہوتا ہے تو کیا ایسی چیزوں کو ووٹ دینا درست ہے؟ جبکہ میں یہ طریقہ اپناتا ہوں کہ میں ڈرامہ ٹی وی چینلز جو کہ بلاشبہ بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں کو ووٹ نہیں دیتا، باقی پلیٹ فارم کو ووٹ کردیتا ہوں جس کی وہ مجھے رقم ادا کردیتے ہیں تو کیا یوں کرنا درست ہے؟
یاد رہے یہ ووٹنگ کرنا ہمارے اختیار میں ہے، ہمیں مجبور نہیں کیا جاتا جب ہم لگاتار تین ٹاسکس کو ووٹ کردیتے ہیں تو رقم ملتی ہے ورنہ نہیں ملتی۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں چار ہزار پاکستانی روپے دے کر اصل رقم کے ساتھ طے شدہ اضافی رقم لینا بظاہر سود کی صورت ہے جو کہ جائز نہیں، لہذا اس سے اجتناب لازم ہے۔
واضح رہے کہ واضح سود کی حرمت کا تعلق کسی فریق کے مذہب سے نہیں ہے بلکہ اصل معاملہ سے ہے، لہذا راجح قول کے مطابق سود کا معاملہ مسلمان کے ساتھ ہو یا غیر مسلم کے ساتھ ، بہرصورت ناجائز اور حرام ہے۔
2) ووٹ دینے کا مقصد اگر اس ادارے یا ویب سائٹ وغیرہ کو تقویت دینا اور اس کی تشہیر کرنا ہو تو ایسی صورت میں کسی ادارے یا پلیٹ فارم کو ووٹ دینا جس کا بنیادی کام ناجائز ہو، یا حرام یا فحاشی و بے حیائی کا فروغ ہو (جیسے بعض ڈرامہ چینلز وغیرہ) تو ایسے اداروں کو ووٹ دینا گناہ کے کام پر تعاون (تعاون علی الاثم) پر مشتمل ہونے کی وجہ سے شرعا درست نہیں ہوگا، اس سے اجتناب لازم ہے۔
البتہ اگر کوئی ادارہ یا پلیٹ فارم مباح یا جائز کام کرتا ہو تو اس کو ووٹ دینا بذات خود جائز ہوگا، بشرطیکہ اس میں کوئی اور خلاف شرع معاملہ (مثلا: جھوٹ، دھوکہ دہی یا کسی غلط کام کی ترویج وغیرہ) نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیة: 278)
یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَo
المائدۃ: (الایة: 2)
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ o
السنن الکبری للبیہقي: (باب کل قرض جر منفعۃ فہو ربا، رقم الحدیث: 11092)
عن فضالة بن عبید صاحب النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ قال: کل قرض جر منفعة فہو وجه من وجوہ الربا
فتح القدیر : (178/6-177)
( قوله و لا بین المسلم و الحربی فی دار الحرب خلافا لابی یوسف و الشافعی ) و مالک و احمد ( الی قولہ ) یحل کل ذالك عند ابی حنیفۃ و محمد خلافاً لابی یوسف و من ذکرنا ( الی قولہ ) و ھذا الحدیث غریب و نقل ما روی مکحول عن النبی ﷺ انہ قال ذلک ( الی قولہ ) قال الشافعی و ھذا الحدیث لیس بثابت و لاحجۃ فیہ الخ
فقه البیوع : (772/2، ط. معارف القران)
و قد وقع الیوم شبه الاتفاق بین العلماء الحنفیة علی الافتاء بمذھب ابی یوسف و الجمھور ، و علی انہ یحرم الربا فی کل حال ، سواءٌ أ کان العقد مع مسلم أم حربی ، فلا بنبغی ان یتمسک بقول ابی حنیفة و محمد رحمھما اللہ تعالی فی ھذا الباب الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی