سوال:
فائق پاکستانی کرنسی کی ویلیو خراب ہونے کی وجہ تین لاکھ کا سونا لے کر محفوظ کرنا چارہا تھا، اس کے ایک بیرون ملک میں رہائش پذیر دوست علی نے کہا کہ تم یہ پیسے میرے پاس رکھوا دو، جب ضرورت ہو تو لے لینا۔فائق نے کہا کہ میں تمہیں پیسے نہیں دے رہا بلکہ تین لاکھ کا سونا خرید کر دیتا ہوں، جو کہ اس وقت کے حساب سے ڈھائی تولہ بن رہا ہے، جب تم مجھے واپس کرو گے تو ڈھائی تولہ ہی واپس کرو گے۔معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا یہ معاملہ درست ہے؟
جواب: سوال میں پوچھا گیا معاملہ شرعا درست ہے، البتہ سوال میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ علی نے وہ سونا قرض کے طور پر لیا ہے یا امانت کے طور پر، اگر قرض کے طور لیا ہو تو علی اس سونے میں مالکانہ تصرفات (خرید و فروخت وغیرہ) کرسکتا ہے، اور مقررہ تاریخ کو اتنا ہی سونا فائق کو واپس کرنے کا شرعا پابند ہوگا، اور اگر امانت کے طور پر لیا ہو تو علی اس سونے کو فائق کی اجازت کے بغیر استعمال نہیں کرسکتا، نیز امانت کی صورت میں اگر خدانخواستہ سونا ضائع ہوجائے، جس میں علی کی کوئی غلطی اور کوتاہی نہ ہو تو شرعا علی پر اس کا ضمان (تاوان) لازم نہیں ہوگا، جبکہ پہلی صورت میں علی ہر حال میں اتنا ہی سونا واپس کرنے کا شرعا پابند ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مرشد الحیران الی معرفة احوال الانسان: (113/1، ط: المطبعة الکبری الامیریة)
(مادۃ 690) یجوز استقراض الذھب و الفضة المضروبین وزنا و یجوز عددا ایضا اذا کان الوزن مضبوطا و یوفی بدلها عددا من نوعها الموافق لها فی الوزن او بدلها وزنا لا عددا.
الفتاوی الھندیة: (338/4، ط: دار الفکر)
الودیعة لا تودع و لا تعار و لا تؤاجر و لا ترھن، و ان فعل شیئا منھا ضمن کذا فی البحر الرائق
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی