سوال:
مفتی صاحب ! میرا سوال یہ ہے کہ میں امریکہ میں رہتا ہوں، میرے آفس میں ایک ہندو ہے، بہت اچھا لڑکا ہے، ہر جگہ مدد کرتا ہے،نا مانگو مدد تب بی خود سے کرتا ہے، کبھی ایسی کوئی بات نہیں کرتا، جس سے ایذاء پہنچے، مجھے بہت زیادہ ٹائم نہیں ہوا،لیکن میں نے یہی دیکھا کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ وہ اکیلا رہتا ہے یہاں گھر کا كھانا میسر نہیں ہے اسے زیادہ تر کھچڑی کھاتا ہے یا کچھ خود بنا کر یا منگوا کر، مجھے دیکھ کر رشک ہوتا ہے اسے کہ مجھے گھر کا كھانا کھانے کو ملتا ہے
تو کیا میں اس کے لیے كھانا لے جا سکتا ہوں ؟
کسی بھی نیت سے ؟
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اگر کوشش کروں تو کیا پتہ میری اِس ایک چیز سے اسے اسلام پڑھنے کا دِل چاہنے لگے،کبھی مستقبل میں۔
جواب:
کسی غیر مسلم سے محض انسانیت کے ناطے یا اس کو دینِ اسلام کی طرف راغب کرنے کے لیے خوش اخلاقی سے پیش آنا، بات چیت کرنا یا اس کے لیے کھانے کا انتظام کرنا مسلمان کے لیے درست ہے، البتہ غیر مسلموں سے دوستانہ، قلبی تعلق اور محبت رکھناجائز نہیں، قرآن کریم میں اس سے سختی کے ساتھ منع کیاگیا ہے۔
﴿لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ﴾
[آل عمران:28]
ترجمہ: مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں، مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا، سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ (28)
کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں:
(1) موالات یعنی دوستی۔
(2)مدارات: یعنی ظاہری خوش خلقی۔
(3)مواسات: یعنی احسان و نفع رسانی۔
موالات تو کسی حال میں جائز نہیں، اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے: ایک دفع ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحت دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے درست نہیں۔
اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔ (بیان القرآن)
لھذا مذکورہ بالا روشنی میں چونکہ آپ کی نیت اس کو اسلام کی طرف راغب کرنے کی ہے اور یہ دوسری قسم میں آتا ہے، لھذا آپ کا اس کے ساتھ اس طرح کا معاملہ کرنا صحیح ہے، بلکہ اس پر قوی ثواب ملنے کی امید ہے۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی