سوال:
ایک شخص نے شفعہ کا دعوی کیا ہے، لیکن اس کے پاس پیسے نہیں ہیں، مجھے پیسوں کی ضرورت ہے، جبکہ وہ شخص نہ خود لے سکتا ہے اور نہ شفعہ سے دستبردار ہوتا ہے، بلکہ کہتا ہے کہ میرے لئے انتظار کرو، پوچھنا یہ ہے کہ شریعت میں انتظار کی حد کتنی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شفعہ کا دعوی کرنے کے بعد شفیع کو چاہیے کہ وہ قاضی کے ہاں شفعہ کا دعوی دائر کرکے اس گھر کو مشتری (خریدار) سے اپنی ملکیت میں لے لے، اگر دعوی کرنے کے بعد شفیع قاضی کے ہاں دعوی کرنے میں بلا عذر تاخیر کرے گا تو ایک ماہ کا عرصہ گزرنے پر اس کا حق شفعہ ساقط ہوجائے گا، البتہ دعوی کرنے کے بعد اگر کوئی عذر ہو (مثلاً: بیماری، قید یا سفر وغیرہ) اور اسے اس معاملے میں کوئی معتبر شخص بھی وکالت کے لیے نہ ملتا ہو تو ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کا حق شفعہ باقی رہے گا۔
سوال میں ذکر کرده صورت میں چونکہ گھر کی خریداری کے لیے رقم نہ ہونا کوئی شرعی عذر نہیں ہے، لہذا شفعہ کا دعوی کرنے کے وقت سے ایک ماہ کا عرصہ گزرنے پر مذکورہ شخص کا حق شفعہ ساقط ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الخانیة: (كتاب الشفعة، 401/3، ط: دار الفكر)
ولو أن الشفيع بعد طلب المواثبة والإشهاد لم يرفع الأمر ألى القاضي، إن لم يتمكن من الرفع بمرض أو حبس أو منع مانع ولم يجد من يوكل بالخصومة لا تبطل شفعته. وإن لم يرفع مع التمكن من المرافعة ذكر في الكتاب أنه على شفعته أبداً وإن طال الزمان، هذا قول أبي حنيفة رحمه الله واختلفت الروايات عن محمد رحمه الله... والفتوى على أنه مقدر بشهر.
فتاوی محمودیه: (159/17، ط: إدارہ الفاروق)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی