سوال:
ایک مسئلہ دریافت کرنا تھا اور اس مسئلے نے کاروبار میں کافی الجھن بنا رکھا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہم شمالی وزیرستان پاکستان میں کوئلے کے کاروبار سے منسلک ہیں اور ہم کوئلہ مزار شریف افغانستان سے منگواکر پاکستان کے مختلف شہروں میں فروخت کرتے ہیں، اب کچھ صورتیں ہیں جو کمیشن سے متعلق ہیں:
1) جو بندہ وہاں سے کوئلہ خریدتا ہے وہ فی ٹن تقریبا بارہ ہزار کرایہ گاڑی کے ڈرائیور کے ساتھ متعین کرتا ہے اور جو اخراجات کوئلے پر راستے میں آتے ہیں، وہ بھی کوئلہ کا مالک ادا کرتا ہے، ایک گاڑی میں تقریبا بیس ٹن کوئلہ آتا ہے، معلوم یہ کرنا ہے کہ اس بیس ٹن کوئلے کے کرائے سے کوئلہ کا مالک چار ہزار یا زائد کمیشن وصول کرسکتا ہے یا نہیں؟
2) دوسری صورت مالک کوئلہ اپنے ساتھ منشی رکھتے ہیں اور منشی سارا حساب کتاب بناتا ہے بینک وغیرہ سے کرائے یعنی کیش لاتا ہے تو کیا منشی کے لیے متعین کرائے سے بطور منشیانہ لینا جائز ہے یا نہیں؟
3) مال اگر کسی اور کا ہو، یعنی کسی اور کے لئے خریدا ہو کرائے دینے والا اور ڈرائیوروں کے ساتھ معاملہ کرنے والا یا تو وکیل یا پھر حصہ دار ہو تو کیا ڈرائور سے متعین کرائے سے کمیشن یا منشیانہ وصول کرسکتا ہے؟
یاد رہے مزار شریف افغانستان میں جس ڈرائیور سے کرایہ متعین کیا جاتا ہے، اس کو پہلے سے بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں پہنچ کر آپ سے منشیانہ وصول کیا جائے اور وہ اس پر راضی ہوکر کرائے کا تعین ہوتا ہے۔
جواب: 1) یہاں دو معاملے الگ الگ ہیں، ایک خریدار کو کوئلہ فروخت کرنا اور دوسرا گاڑی والے کے ساتھ فی ٹن کمیشن طے کرنا۔ آپ کا سوال دوسرے معاملہ سے متعلق ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ خریدار نے گاڑی والے کے ساتھ کرایہ فی ٹن بارہ ہزار روپے طے کیا ہے تو اس رقم کا حقدار وہ گاڑی والا ہے، فروخت کنندہ کا اس میں سے اپنا کوئی کمیشن رکھنا شرعا درست نہیں ہے، البتہ اگر آپ پہلے سے گاڑی والے کے ساتھ یہ طے کرتے ہیں کہ ہم آپ کو کسٹمر فراہم کریں گے، اس کے عوض اتنا کمیشن لیا جائے گا، پھر آپ خریدار کا گاڑی والے سے رابطہ کراتے ہیں تو ایسی صورت میں آپ باہمی رضامندی سے گاڑی والے سے طے شدہ کمیشن لے سکتے ہیں۔
2) منشی چونکہ خدمات فراہم کرتا ہے، اس لیے وہ اجرت اور معاوضے کا مستحق ہے، اور اس کی اجرت کوئلہ فروخت کرنے والے پر لازم ہے، کیونکہ وہ اسی کے لیے کام کر رہا ہے، گاڑی والے کے کرایہ سے منشی کیلئے کمیشن کی رقم نکالنا شرعا درست نہیں ہے۔
3) کوئلہ خریدار بھی (چاہے اپنے لیے خرید رہا ہو یا کسی اور کے لیے) اسی معاملہ میں ڈرائیور سے کمیشن لینے کا مستحق نہیں، اس لیے وہ ڈرائیور سے اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا، ہاں! اگر کسٹمر فراہم کرنے کے عوض باہمی رضامندی سے الگ سے کمیشن طے کرلیا جائے تو شرعا درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
شرح المجلة للاتاسی: (255/1، ط: رشیدیة)
(المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي.
ای لا یحل فی کل الاحوال عمدا او خطا او نسیانا، جدا او لعبا ان یاخذ احد مال احد بوجه لم یشرعه الله تعالی و لم یبحه.
الھدایة: (418/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
الأصل في أخذ مال الغير الحرمة.
الدر المختار مع رد المحتار: (10/6، ط: دار الفکر)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة۔۔الخ
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی