سوال:
ہمارے والد صاحب کا 18 اگست 1982 میں انتقال ہوا، والد صاحب نے ترکہ میں ایک مکان چھوڑا ہے، انتقال کے بعد اس کی شرعی تقسیم نہ ہو سکی، انتقال کے وقت ورثاء میں ایک بیوہ، 3 بیٹے اور 6 بیٹیاں حیات تھیں۔
اس کے بعد 10 دسمبر 2005 کو بڑی بیٹی کا انتقال ہوا، ان کے انتقال کے وقت ورثاء میں 1 بیٹا، 2 بیٹیاں، شوہر، والدہ، 3 بھائی اور 5 بہنیں حیات تھیں۔
2 جون 2010 کو دوسری بیٹی کا انتقال ہوا، جن کے ورثاء میں 3 بیٹے، 2 بیٹیاں، شوہر، والدہ، 3 بھائی اور 4 بہنیں حیات تھیں۔
7 مئی 2011 میں تیسری کنواری بیٹی کا انتقال ہوا، جن کے ورثاء میں والدہ، 3 بھائی اور 3 بہنیں حیات تھیں۔
22 جنوری 2016 میں بڑے بیٹے کا انتقال ہوا، جن کے ورثاء میں بیوہ، 1 بیٹا، والدہ، 2 بھائی اور 3 بہنیں حیات تھیں۔
27 دسمبر 2016 میں ہماری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا، جن کے ورثاء میں 2 بیٹے اور 3 بیٹیاں حیات ہیں۔
مرحوم والد کے ترکہ میں چھوڑے ہوئے مکان کی مالیت تقریباً 2 کروڑ ہے، براہ کرم ان پیسوں کی شرعی تقسیم فرمادیں۔
جواب: مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو سترہ لاکھ اکتالیس ہزار آٹھ سو چوبیس (1741824) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے مرحوم غلام اللہ خان کے دونوں زندہ بیٹوں (نعیم اللہ اور عرفان اللہ) میں سے ہر ایک کو تین لاکھ اکہتر ہزار ایک سو چار (371104) اور تینوں زندہ بیٹیوں (رفعت، نزہت اور ارم) میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ پچاسی ہزار پانچ سو باون (185552) حصے ملیں گے۔
مرحومہ کشور کے شوہر کو اکتیس ہزار سات سو باون (31752)، بیٹے کو سینتیس ہزار چوالیس (37044) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو اٹھارہ ہزار پانچ سو بائیس (18522) حصے ملیں گے۔
مرحومہ عشرت کے شوہر کو اکتیس ہزار سات سو باون (31752)، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو اٹھارہ ہزار پانچ سو بائیس (18522) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو نو ہزار دو سو اکسٹھ (9261) حصے ملیں گے۔
مرحوم بیٹے محمد اللہ خان کی بیوی کو چونتیس ہزار چھ سو بیانوے (34692) اور بیٹے کو ایک لاکھ چھیانوے ہزار پانچ سو اٹھاسی (196588) حصے ملیں گے۔
اس تقسیم کی رو سے دو کروڑ (20000000) روپوں میں سے مرحوم غلام اللہ خان کے دونوں زندہ بیٹوں (نعیم اللہ اور عرفان اللہ) میں سے ہر ایک کو بیالیس لاکھ اکسٹھ ہزار چھیانوے روپے اور چالیس پیسے (4261096.40) اور تینوں زندہ بیٹیوں (رفعت، نزہت اور ارم) میں سے ہر ایک کو اکیس لاکھ تیس ہزار پانچ سو اڑتالیس روپے اور بیس پیسے (2130548.20) ملیں گے۔
مرحومہ کشور کے شوہر کو تین لاکھ چونسٹھ ہزار پانچ سو تراسی روپے اور تینتس پیسے (364583.33)، بیٹے کو چار لاکھ پچیس ہزار تین سو سینتالیس روپے اور بائیس پیسے (425347.22) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو دو لاکھ بارہ ہزار چھ سو تہتر روپے اور اکسٹھ پیسے (212673.61) ملیں گے۔
مرحومہ عشرت کے شوہر کو تین لاکھ چونسٹھ ہزار پانچ سو تراسی روپے اور تینتس پیسے (364583.33)، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو دو لاکھ بارہ ہزار چھ سو تہتر روپے اور اکسٹھ پیسے (212673.61) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو ایک لاکھ چھ ہزار تین سو چھتیس روپے اور اسی پیسے (106336.80) ملیں گے۔
مرحوم بیٹے محمد اللہ خان کی بیوی کو تین لاکھ اٹھانوے ہزار تین سو اکتالیس روپے اور چار پیسے (398341.04) اور بیٹے کو بائیس لاکھ ستاون ہزار دو سو پینسٹھ روپے اور چرانوے پیسے (2257265.94) ملیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (801/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية)....الخ
المبسوط للسرخسی: (55/30، ط: دار المعرفة)
وإذا مات الرجل ولم تقسم تركته بين ورثته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول۔۔۔۔۔وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت فإنه تقسم تركة الميت الأول أولا لتبين نصيب الثاني، ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی