سوال:
مفتی صاحب! ہمارے نانا کا انتقال ہوا جن کے ورثاء میں ایک بیٹا اور دو بیٹیاں تھیں، ان میں میراث تقسیم ہو گئی، اس تقسیم کے نتیجے میں ہماری والدہ اور خالہ کو جو مشترکہ حصہ ملا، اس میں پہلے خالہ نے 1973 میں والدہ کی رضامندی سےتعمیر کی، اس کے بعد بھانجے (شاہد محمود درانی) نے 1992 میں مزید ایک منزل خالہ اور والدہ کی اجازت سے تعمیر کی، پھر ہماری خالہ سے پہلے ماموں کا انتقال ہوگیا تھا، پھر اس کے بعد خالہ کا انتقال ہوا، خالہ کے انتقال کے وقت ورثاء میں ایک بہن (یعنی ہماری والدہ) اور خالہ کے شوہر حیات تھے، لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں تھی، خالہ کے بعد خالو کا انتقال ہوگیا تھا، خالو کی پہلی بیوی سے چار بچے (تین بیٹیاں اور ایک بیٹا )ہیں۔
خالہ کے بعد 2015 میں ہماری والدہ کا انتقال ہوا، والدہ کے انتقال کے وقت ہم چھ بیٹے حیات تھے، جبکہ ہماری بہن اور والد کا والدہ کی زندگی میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔
والدہ کے بعد ہمارے دو بھائیوں کا انتقال ہوا، جن میں پہلے بشیر احمد کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں ان کی بیوی، دو بیٹے، دو بیٹیاں ہیں اور پھر دوسرے بھائی (اختر )کا انتقال ہوا، ان کے ورثاء میں پانچ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں، ان کی اہلیہ کا انتقال مرحوم ( اختر بھائی) کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔
ابھی ہم چار بھائی حیات ہیں جن میں سے ایک بھائی نے موروثی زمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس پر خالو کا کوئی حق نہیں ہے۔
اس تفصیل کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں:
1) ہمارے خالو کا اس زمین میں حصہ ہے یا نہیں؟
2) ہمارے جن بھائیوں کا انتقال والدہ کے بعد ہوا ہے، ان کا والدہ کی میراث میں حصہ ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو ان کے حصہ کا کیا کیا جائے؟
3) یہ زمین ہم (مرحوم/ حیات) بھائیوں کے درمیان کیسے تقسیم ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ کسی وارث کا میراث کے مال و جائیداد پر قبضہ کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے، احادیثِ مبارکہ میں اس پر بڑی وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی ظلماً لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔ (مشکوٰۃ المصابیح: باب الغصب و العاریة)
دوسری حدیثِ مبارکہ میں ہے، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی میراث کاٹے گا، (یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا۔ (مشکوٰۃ المصابیح: باب الغصب و العاریة)
لہذا مکان پر قبضہ کیے ہوئے وارث (بھانجے/بیٹے) پر لازم ہے کہ دنیا میں ہی خالہ اور اپنی والدہ مرحومہ کے تمام شرعی ورثاء کو شریعت کے مطابق ان کا حق دے دے، ورنہ قیامت میں سخت رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
نیز آپ نے اگر والدہ اور خالہ یا ان کے انتقال ہونے کی صورت میں ان کے شرعی ورثاء کی اجازت سے پورشن اپنے لیے تعمیر کیا ہو تو اس پر آنے والا خرچہ آپ کو ملے گا اور اگر اجازت کے بغیر اپنے لیے تعمیر کیا تھا تو اس کے ملبہ کا خرچہ آپ کو ملے گا اور اگر سب کے لیے تعمیر کیا ہو تو یہ آپ کی طرف سے تبرّع اور احسان ہوگا اور اس صورت میں تعمیر پر لگائی ہوئی رقم آپ کو نہیں ملے گی۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوالات کے جوابات ترتیب وار درج ذیل ہیں:
1) چونکہ آپ کی خالہ کی وفات کے وقت ان کے شوہر زندہ تھے اور خالہ کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی، اس لیے آپ کے خالو اپنی بیوی کی میراث میں آدھے (1/2) حصے کے حقدار ہیں جو ان کے انتقال کے بعد ان کے شرعی ورثاء میں شریعت کے حصوں کے مطابق تقسیم ہوگا۔
2) آپ کی والدہ کے انتقال کے بعد جن دو بیٹوں کا انتقال ہوا ہے، ان کا اپنی والدہ کی میراث میں حصہ ہے جو اب ان کے شرعی ورثاء (بیوی، بیٹے اور بیٹیوں) میں شریعت کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگا۔
3) مرحومین کی تجہیز وتکفین کے جائز اورمتوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو دو ہزار آٹھ سو اسّی (2880) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے آپ کے خالو کی تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو دو سو اٹھاسی (288) حصے اور بیٹے کو پانچ سو چہتر (576) حصے ملیں گے۔ آپ چاروں زندہ بھائیوں میں سے ہر ایک کو دو سو چالیس (240) حصے ملیں گے۔ مرحوم بشیر احمد کی بیوی کو تیس (30)، دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو پینتیس (35) اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو ستر (70) حصے ملیں گے۔ مرحوم اختر کے پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو چالیس (40) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو بیس (20) حصے ملیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے آپ کے خالو کی تینوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %10 فیصد، بیٹے کو %20 فیصد حصہ ملے گا، جبکہ آپ چاروں زندہ بھائیوں میں سے ہر ایک کو %8.33 فیصد حصہ ملے گا۔
مرحوم بشیر احمد کی بیوی کو %1.041 فیصد، دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو %1.215 اور دونوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو %2.430 فیصد حصہ ملے گا۔
مرحوم اختر کے پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو %1.388 اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک کو %0.694 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ ۚ ۔۔۔۔۔۔۔
فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْن ... الخ
وقوله تعالی: (النساء، الایة: 176)
یَسْتَفْتُوْنَكَؕ-قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰلَةِؕ-اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَۚ
مشکوٰۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، ص: 254، ط: قدیمي)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من أخذ شبرا من الأرض ظلما فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين
و فیها ایضاً: (ص: 266، ط: قدیمي)
عن انس قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیه وسلم من قطع میراث وارثه قطع ﷲ میراثه من الجنة یوم القیمة.
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 6732)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (314/3، ط: دار الجيل)
إذا عمر أحد الشريكين الملك المشترك ففي ذلك احتمالات أربعة: ...
الاحتمال الثاني - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك للشركة بدون إذن الشريك كان متبرعا...
الاحتمال الرابع - إذا عمر أحد الشريكين المال المشترك بدون إذن شريكه على أن يكون ما عمره لنفسه فتكون التعميرات المذكورة ملكا له وللشريك الذي بنى وأنشأ أن يرفع ما عمره من المرمة الغير المستهلكة. انظر شرح المادة (529) ما لم يكن رفعها مضرا بالأرض ففي هذا الحال يمنع من رفعها.
بدائع الصنائع: (57/7، ط: دار الکتب العلمیة)
لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته» ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل
رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.
عمدۃ القاری: (229/23، ط: دار احیاء التراث العربی)
المواريث فرائض وفروضا لما أنها مقدرات لأصحابها ومبينات في كتاب الله تعالى ومقطوعات لا تجوز الزيادة عليها ولا النقصان منها.
الدر المختار: (کتاب الفرائض، 81/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) ... الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی