سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص کا انتقال ہوا، اس کے ورثاء صرف ایک بیوی، تین بھتیجیاں، دو بھانجے اور ایک بھانجی ہے، اس کے علاوہ مرحوم کے والدین، بہن بھائی اور بچے وغیرہ اس کی زندگی میں ہی انتقال کر گئے ہیں، اس کے انتقال کے وقت صرف یہی ورثاء تھے، اب ان کے درمیان مرحوم کی میراث کیسے تقسیم ہوگی؟
جواب: سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق اگر واقعتاً مرحوم شخص کے ورثاء میں بیوی کے علاوہ ذوی الفروض اور عصبات میں سے کوئی نہیں ہے اور ذوی الارحام میں سے بھی صرف تین بھتیجیاں، دو بھانجے اور ایک بھانجی ہیں تو پوچھی گئی صورت میں مرحوم کی میراث میں سے مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد ساٹھ (60) حصوں میں تقسیم کی جائے گی، جس میں سے بیوی کو پندرہ (15) حصے، تینوں بھتیجیوں میں سے ہر ایک بھتیجی کو دس (10) حصے، دونوں بھانجوں میں سے ہر ایک بھانجے کو چھ (6) حصے اور بھانجی کو تین (3) حصے ملیں گے۔
فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوی کو ٪25 فیصد، تینوں بھتیجیوں میں سے ہر ایک بھتیجی کو ٪16.66 فیصد، دونوں بھانجوں میں سے ہر ایک بھانجے کو ٪10 فیصد اور بھانجی کو ٪5 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ
حاشیة ابن عابدين (رد المحتار): (باب توريث ذوي الأرحام، 791/6- 797، ط: الحلبی)
(هو كل قريب ليس بذي سهم ولا عصبة) فهو قسم ثالث حينئذ (ولا يرث مع ذي سهم ولا عصبة سوى الزوجين) لعدم الرد عليهما (فيأخذ المنفرد جميع المال)بالقرابة (ويحجب أقربهم الأبعد) كترتيب العصبات فهم أربعة أصناف جزء الميت، ثم أصله ثم جزء أبويه ثم جزء جديه أو جدتيه....
(ثم) جزء ابويه وهم (اولاد الأخوات) لأبوين لؤ لأب واولاد الأخوة والأخوات لأم وبنات الأخوة لأبوين اؤ لأب.
(و) أما ( إذا اختلفت الفروع والأصول) كبنت ابن بنت وابن بنت بنت (اعتبر محمد في ذلك الأصول وقسم) المال على أول بطن اختلف بالذكورة والأنوثة وهو هنا لبطن الثاني وهو ابن بنت وبنت بنت فمحمد اعتبر صفة الأصول في البطن الثاني في مسألتنا فقسم (عليهم أثلاثا وأعطى كلا من الفروع نصيب أصله) فحينئذ يكون ثلثاه لبنت ابن البنت نصيب أبيها وثلثه لابن بنت البنت لأنه نصيب أمه وتمامه في السراجية وشروحها (وهما اعتبرا الفروع) فقط لكن قول محمد أشهر الروايتين عن أبي حنيفة في جميع ذوي الأرحام وعليه الفتوى.
(قوله: وأما إذا اختلفت الفروع والأصول) مقابل قوله فإن اتفقت إلخ لكن ذكر اختلاف الفروع غير لازم لأن الخلاف في اختلاف الأصول فقط (قوله: وهما) أي أبو حنيفة في رواية شاذة عنه وأبو يوسف في قوله الأخير اه قاسم (قوله: وفي الملتقى وبقول محمد يفتى) أي وإن صحح في المختلف والمبسوط قول أبي يوسف لكونه أيسر على المفتي كما أخذوا بقوله في بعض مسائل الحيض اه در منتقى.
الفتاوی السراجية: (کتاب الفرائض، ص: 587، ط: زمزم)
اولاد الاخوات، وبنات الاخوة، واولاد الاخوة لام، واولاد الاخوات لاب وام المال بینهم للذکر مثل حظ الانثیین. ان اجتمع اولاد الاخوات المتفرقات فعند ابی یوسفؒ من کان لاب وام فهو اولی ممن کان لاب، ومن کان لاب فهو اولی ممن کان لام، وعند محمدؒ یعتبر الاصول کبنت اخت لاب وام وابن اخت لاب وام، فعند ابی یوسفؒ للبنت سهم وللابن سهمان، وعند محمدؒ علی العکس اعتباراً للاصول.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی