سوال:
میری بہن کی شادی ایک جگہ ہوئی تھی جس سے ان کی دو بیٹیاں پیدا ہوئیں اور تین سال بعد پھر میرے بہنوئی کا انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد میری بہن دو سال اپنے سسرال میں رہی، اس کے بعد وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہمارے گھر یعنی اپنے والد کے گھر آگئیں۔ اب تقریباً چودہ سال سے وہ اپنے والد اور بھائیوں کے ساتھ رہ رہی ہے۔
اس دوران میرے بہنوئی کے گھر والوں نے مالی طور پر کوئی خاص مدد نہیں کی۔ چند مہینے انہوں نے تین تین ہزار روپے دیے، جو کہ کسی کام کے نہیں تھے، وہ بھی صرف کچھ ہی مہینوں کے لیے دیے گئے۔ میرے بہنوئی کے والد کا انتقال ان کی زندگی میں ہی ہو گیا تھا۔ زمین ان کی والدہ کے نام پر ہے جو اب وقتاً فوقتاً بیچ رہی ہیں اور اپنے دوسرے دونوں بیٹوں اور دونوں بیٹیوں کو پیسے دے رہی ہیں، لیکن جب ہم کچھ کہتے ہیں تو وہ کہتی ہیں کہ "ان کو بھی ملے گا"۔
اب سولہ سال گزر چکے ہیں، لیکن میری بہن کی ساس یا جیٹھ وغیرہ کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے۔ جو زمین ہے، وہ بھی بیچ رہے ہیں لیکن میری بھانجیوں کو کوئی حصہ نہیں دے رہے۔ ان سولہ سالوں میں ان لوگوں نے زیادہ سے زیادہ تیس سے پچاس ہزار روپے دیے ہوں گے۔ جبکہ زمین اچھی مالیت کی ہے۔
اب میری بھانجیاں کالج میں پڑھتی ہیں اور ہر مہینے پندرہ سے بیس ہزار روپے ان کا خرچ ہوتا ہے، جو ان کے نانا اور ماموں برداشت کرتے ہیں۔ پھر ان بچیوں کی شادی بھی کرنی ہے۔
مہربانی فرما کر رہنمائی فرمائیں کہ اب کیا کیا جائے؟
تنقیح: جو زمین جو آپ کے بہنوئی کی والدہ کے نام ہے، محض کاغذی طور پر ان کے نام ہے یا ان کے شوہر نے اپنی زندگی میں اس زمین کو باقاعدہ قبضہ و تصرف کے ساتھ ان کے نام ہبہ (گفٹ) کر دیا تھا؟ اس کی وضاحت فرمائیں تاکہ مسئلے کا شرعی حکم واضح کیا جا سکے۔
جواب تنقیح: میرے بہنوئی کے والد نے اپنی بیوی کو یعنی میری بہن کی ساس کو اپنی زندگی میں زمین دے دی تھی اور میرے بہنوئی کی والدہ کی اپنی زمین بھی ہے جو ان کو اپنے بھائیوں کی طرف سے ملی ہے اور ان کو وہ وقتاً فوقتاً بیچتی ہیں اور اپنے دوسرے بیٹوں اور بیٹیوں کو دیتی ہیں۔
جواب: 1) واضح رہے کہ اگر وہ زمین آپ کی بہن کے سسر نے اپنی بیوی کو ملکیتاً اور مکمل قبضہ اور تصرف کے ساتھ دی تھی تو وہ شرعاً ساس کی ذاتی ملکیت شمار ہوگی، اس زمین میں آپ کی بہن یا ان کی بیٹیوں کا کوئی شرعی حق یا حصہ نہیں ہوگا اور نہ ہی اس زمین میں آپ کی بہن کے سسر کی میراث جاری ہوگی۔
اسی طرح جو زمینیں آپ کی بہن کی ساس کو ان کے بھائیوں نے دی ہیں، وہ بھی ان کی ذاتی ملکیت ہیں، لہٰذا ان میں بھی آپ کی بہن یا بھانجیوں کا کوئی شرعی حق نہیں بنتا۔
2) نفقہ سے متعلق تفصیل یہ ہے کہ اگر آپ کی بھانجیوں کو میراث میں اتنا حصہ ملتا ہے، جس سے وہ اپنا خرچہ برداشت کرسکتی ہیں تو وہ اپنا خرچہ خود برداشت کریں گی، اور اگر وہ اپنا خرچہ برداشت نہیں کرسکتیں اور حلال طریقے سے روزی کمانے سے بھی عاجز ہیں تو ایسی صورت میں ان کے خرچے کا ذمہ ایک تہائی (1/3) ماں پر اور (2/3) چچاؤں پر لازم ہوگا۔
نیز واضح رہے ک بالغ لڑکی کے خرچے کی ذمّہ داری ماں اور چچا پر اس وقت لازم ہے، جب اہل قرابت، رشتہ داروں یا کوئی اور ان کا خرچہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہ ہو، اگر کوئی ان کے خرچ کی ذمّہ داری لے لیتا ہے تو پھر ماں اور چچا پر ان کا خرچ لازم نہیں ہے۔
3) مرحومین (آپ کی بہن کے سسر اور شوہر) کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو چار ہزار چھ سو آٹھ (4608) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے آپ کے بہنوئی کی والدہ کو سات سو چوالیس (744) حصے، آپ کے بہنوئی کے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو ایک ہزار بائیس (1022) حصے، آپ کے بہنوئی کی دونوں بہنوں میں سے ہر ایک کو پانچ سو گیارہ (511)حصے، آپ کی بہن کو ایک سو چھبّیس (126) حصے اور آپکی دونوں بھانجیوں میں سے ہر ایک کو تین سو چھتّیس (336) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو آپ کے بہنوئی کی والدہ کو %16.14 فیصد، ان کے دونوں بھائیوں میں سے ہر ایک بھائی کو %22.17 فیصد، ان کی دونوں بہنوں میں سے ہر ایک کو %11.08 فیصد، آپ کی بہن کو %2.73 فیصد اور آپ کی دونوں بھانجیوں میں سے ہر ایک کو %7.29 فیصد حصہ ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ
وقوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ
رد المحتار: (مطلب فی نفقة الأصول، 625/3، ط: سعید)
ﻭﻣﺜﺎﻝ اﻟﺜﺎﻧﻲ ﻣﺎ ﻓﻲ اﻟﻘﻨﻴﺔ: ﻟﻮ ﻟﻪ ﺟﺪ ﻷﻡ ﻭﻋﻢ ﻓﻌﻠﻰ اﻟﺠﺪ. اﻩ. ﺃﻱ ﻟﺘﺮﺟﺤﻪ ﻓﻲ اﻟﻤﺜﺎﻟﻴﻦ ﺑﺎﻟﺠﺰﺋﻴﺔ ﻣﻊ ﻋﺪﻡ اﻻﺷﺘﺮاﻙ ﻓﻲ اﻹﺭﺙ؛ ﻷﻧﻪ ﻫﻮ اﻟﻮاﺭﺙ ﻓﻲ اﻷﻭﻝ، ﻭاﻟﻮاﺭﺙ ﻫﻮ اﻟﻌﻢ ﻓﻲ اﻟﺜﺎﻧﻲ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﻛﻞ ﻣﻦ اﻟﺼﻨﻔﻴﻦ ﺃﻋﻨﻲ اﻷﺻﻮﻝ ﻭاﻟﺤﻮاﺷﻲ ﻭاﺭﺛﺎ اﻋﺘﺒﺮ اﻹﺭﺙ. ﻓﻔﻲ ﺃﻡ ﻭﺃﺥ ﻋﺼﺒﻲ ﺃﻭ اﺑﻦ ﺃﺥ ﻛﺬﻟﻚ ﺃﻭ ﻋﻢ ﻛﺬﻟﻚ، ﻋﻠﻰ اﻷﻡ اﻟﺜﻠﺚ ﻭﻋﻠﻰ اﻟﻌﺼﺒﺔ اﻟﺜﻠﺜﺎﻥ ﺑﺪاﺋﻊ.
و فیه ایضاً: (کتاب الغصب، 189/6، ط: سعید)
ﺃﺻﻠﻪ ﺃﻥ اﻟﻐﻠﺔ ﻟﻠﻐﺎﺻﺐ ﻋﻨﺪﻧﺎ؛ ﻟﺃﻥ اﻟﻤﻨﺎﻓﻊ ﻻ ﺗﺘﻘﻮﻡ ﺇﻻ ﺑﺎﻟﻌﻘﺪ ﻭاﻟﻌﺎﻗﺪ ﻫﻮ اﻟﻐﺎﺻﺐ ﻓﻬﻮ اﻟﺬﻱ ﺟﻌﻞ ﻣﻨﺎﻓﻊ اﻟﻌﺒﺪ ﻣﺎﻻ ﺑﻌﻘﺪﻩ، ﻓﻜﺎﻥ ﻫﻮ ﺃﻭﻟﻰ ﺑﺒﺪﻟﻬﺎ، ﻭﻳﺆﻣﺮ ﺃﻥ ﻳﺘﺼﺪﻕ ﺑﻬﺎ ﻻﺳﺘﻔﺎﺩﺗﻬﺎ ﺑﺒﺪﻝ ﺧﺒﻴﺚ ﻭﻫﻮ اﻟﺘﺼﺮﻑ ﻓﻲ ﻣﺎﻝ اﻟﻐﻴﺮ ﺩﺭﺭ.
البحر الرائق: (217/4، 218، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله لا الموت والمعصية) أي لا تجب النفقة لمعتدة الموت ولا لمعتدة وقعت الفرقة بينها وبين زوجها بمعصية من جهتها كالردة وتقبيل ابن الزوج أما المتوفى عنها زوجها فلأن احتباسها ليس لحق الزوج، بل لحق الشرع فإن التربص عبادة منها ألا ترى أن معنى التعريف عن براءة الرحم ليس بمراعى فيه حتى لا يشترط فيه الحيض فلا تجب نفقتها عليه؛ ولأن النفقة تجب شيئا فشيئا ولا ملك له بعد الموت فلا يمكن إيجابها في ملك الورثة....
قيد بالطفل وهو الصبي حين يسقط من البطن إلى أن يحتلم، ويقال جارية طفل وطفلة، كذا في المغرب وبه علم أن الطفل يقع على الذكر والأنثى؛ ولذا عبر به؛ لأن البالغ لا تجب نفقته على أبيه إلا بشروط نذكرها.
و فیه ایضاً: (228/4، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله ولقريب محرم فقير عاجز عن الكسب بقدر الإرث لو موسرا) .....وقيد بالفقر؛ لأن الغني نفقته على نفسه وقيدنا بالعجز عن الكسب وهو بالأنوثة مطلقا وبالزمانة والعمى ونحوها في الذكر فنفقة المرأة الصحيحة الفقيرة على محرمها فلا يعتبر في الأنثى إلا الفقر.
الفتاوی الخانیة: (449/1، ط: مکتبة حقانیة)
صغیر مات ابوہ، وله ام وجد (اب الاب) کانت نفقته علیہما اثلاثا: ثلث علی الام والثلثان علی الجد۔
و فیها ایضاً: (450/1، ط: مکتبة حقانیة)
رجل مات وترک ولدا صغیرا وابا کانت نفقة الصغیر علی الجد۔ فان کانت للصغیر ام موسرة وجد موسر کانت نفقة الصغیر علی الجد والام اثلاثا فی ظاھر الروایة اعتبارا بالمیراث۔
الفتاویٰ التاتارخانیة: (164/4، ط: قدیمی)
وفی الخانیة : المعتدة عن وفاة تکون نفقتھا فی مالھا۔ وفی الزاد : واختلف السلف فیما اذا کانت حاملا والصحیح انہ لا نفقة لھا۔
امداد الاحکام: (335/3)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی