سوال:
اگر کوئی دوکاندار کسی بل (جو صحیح قیمتیں لگا کر 10,000 کا بن رہا ہو) میں رد و بدل کر کے اسے 25,000 کا بنائے اور اس میں سے 10,000 کمیشن کے طور پر کسی کو دے تو کیا اس دوکاندار کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ نوٹ: جو شخص کمیشن لے رہا ہے وہ اپنے Client کو بھروسہ دلا کر لاتا ہے کہ یہ اس کی دوکان ہے اور آپ کو صحیح جگہ سے سامان دلا رہا ہوں۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں خریدار کے ساتھ پہلے سے طے کیے بغیر اس کے بل میں کمشین کی رقم شامل کرکے کمیشن وصول کرنا غلط بیانی اور دھوکہ دہی پر مشتمل ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب لازم ہے، البتہ اگر کمیشن لینا مقصود ہو تو پہلے سے باہمی رضامندی کے ساتھ طے کیا جائے کہ آپ کو صحیح جگہ سے سامان لیکر دوں گا اور اس کے عوض میرا اتنا کمیشن ہوگا، پھر طے شدہ کمیشن لیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الایة: 188)
وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ... الخ
تفسیر القرطبی: (338/2، ط: دار الکتب المصریة)
والمعنی: لایاکل بعضکم مال بعض بغیر حق فیدخل فی ھذا القمارُ و الخداع و الغصوب و جحد الحقوق و ما لا تطیب به نفس مالکه، أو حرمته الشریعة و عان طابت به نفس مالکه
شرح المجلة للاتاسی: (255/1، ط: رشیدیة)
(المادة 97) : لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي.
ای لا یحل فی کل الاحوال عمدا او خطا او نسیانا، جدا او لعبا ان یاخذ احد مال احد بوجه لم یشرعه الله تعالی و لم یبحه.
الھدایة: (418/2، ط: دار احیاء التراث العربی)
الأصل في أخذ مال الغير الحرمة.
الدر المختار مع رد المحتار: (10/6، ط: دار الفکر)
(و) اعلم أن (الأجر لا يلزم بالعقد فلا يجب تسليمه) به (بل بتعجيله أو شرطه في الإجارة) المنجزة۔۔الخ
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی