سوال:
کیا نفلی صدقات قریبی رشتہ داروں کو دے سکتے ہیں؟ نیز سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ کیا جو خرچہ والدین پر کیا جاتا ہے، وہ بھی صدقہ ہے؟
جواب: واضح رہے کہ رشتے داروں خصوصاً اپنے ضرورت مند والدین، بہنوں، بھائیوں وغیرہ کو نفلی صدقات دینا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ اس کا ثواب دیگر اجنبی فقراء ومساکین پر خرچ کرنے کے مقابلے میں دگنا ہے۔ چنانچہ حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: " کسی مسکین کو صدقہ دینا محض صدقہ ہے، مگر اپنے اقرباء ورشتہ داروں میں سے کسی کو صدقہ دینا دوہرے ثواب کا باعث ہے، ایک ثواب تو صدقہ کا اور دوسرا ثواب صلہ رحمی (رشتہ داروں سے حسن سلوک )کا ہوتا ہے۔" (سنن دارمی، حدیث نمبر: 1722)
نیز والدین پر خرچ کی جانے والی رقم پر بھی صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدارمی: (رقم الحديث: 1722، ط: دار المغنی)
أخبرنا محمد بن يوسف، عن ابن عيينة قال: وقد سمعته من الثوري، عن عاصم، عن حفصة بنت سيرين، عن الرباب، عن سلمان بن عامر الضبي، يرفعه قال: «الصدقة على المسكين صدقة، وهي على ذي الرحم اثنتان صدقة وصلة».
فيض القدير: (362/2، ط: المكتبة التجارية)
⦗٣٦٢⦘ ٢٠٤٦ - (إن الصدقة على ذي قرابة) أي صاحب قرابة وإن بعد (يضعف) لفظ رواية الطبراني يضاعف (أجرها مرتين) لأنها صدقة وصلة وفي كل منهما أجر على حدته والمقصود أن الصدقة على القريب أولى وآكد من الصدقة على الأجنبي وإن كان القريب كاشحا كما صرح به في عدة أخبار.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی