سوال:
السلام علیکم! سوال عرض خدمت یہ ہے کہ سونے کی زیورات یا خام سونے کے اوپر زکوۃ نکالنے کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟ کیا متعینہ وقت پر سونے یا مال کی جو بھی مالیت بنتی ہے اس پہ ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوۃ بنا کر کیش کی صورت میں ادا کرنا صحیح ہے یا سونے کے وزن کے حساب سے ڈھائی فیصد کا جو سونے کا وزن بنتا ہو اس کو سونے کی صورت میں ادا کیا جائے؟ چونکہ زکوۃ کی رقم زکوۃ کے متعینہ ایک دن میں ساری ادا کرنا ممکن نہیں ہے اور مستقبل کی متوقع ضرورت کے پیش نظر زکوۃ کا حساب لگا کر اس کی رقم کو سال میں تقسیم کر کے ادا کرتے ہیں، جیسا کہ کچھ علماء سے یہ تعلیم ملی تھی کہ یہ بہتر طریق ہے۔
دونوں صورتوں میں فرق یہ ہے کہ اگر پیسوں کے حساب سے زکوۃ کی رقم نکالی جائے تو وہ ثابت/جامد رہے گی جبکہ اگر زکوۃ سونے کی وزن کی صورت میں نکالی جائے تو سونے کے ریٹ وقتاً فوقتاً مختلف ہوتے ہیں تو رقم میں فرق آنا یقینی ہے
شریعت کے مطابق اس کا صحیح طریقہ کار کیا ہے؟ جبکہ ہم اپنی ساری زکوۃ ہمیشہ کیش کی صورت میں ہی ادا کرتے ہیں۔
نیز یہ کہ اگر پچھلے سالوں کی زکوۃ میں کچھ ادائیگی باقی رہتی ہے تو سونے کے سلسلے میں اس کی ادائیگی اس وقت یا زکوۃ کی متعینہ تاریخ میں جو سونے کا ریٹ تھا اس ریٹ کے حساب سے ہی رقم کی ادائیگی کی جائے گی یا سونے کا وزن بنا کر اس کے حالیہ ریٹ کے حساب سے زکوۃ کی رقم کی ادائیگی کی جائے گی؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ سونے کی زکوٰۃ کی ادائیگی سونے کی صورت میں نکالنا بھی درست ہے، اور یہ بھی درست ہے کہ ملکیت میں موجود سونے کی قیمتِ فروخت (جس قیمت پر سنار سونا خریدتا ہے) کے اعتبار سے رقم کی صورت میں زکوٰۃ ادا کی جائے۔
البتہ پہلی صورت میں سونے کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ وزن کا اعتبار کرکے ملکیت میں موجود سونے کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی، لہذا اگر کسی کی ملکیت میں مثلاً چالیس تولہ سونا ہو اور وہ سونے کی صورت میں زکوٰۃ نکالنا چاہے تو اس پر ایک تولہ سونا زکوٰۃ کے طور پر دینا لازم ہوگا۔
نیز سونے کی گزشتہ سالوں کی زکوٰۃ کی ادائیگی اگر سونے کی صورت میں کرنا چاہے تو وزن کے اعتبار سے چالیسواں حصہ (ڈھائی فیصد) دینا ہوگا، اور اگر رقم کی صورت میں دینا چاہے تو اس صورت میں موجودہ قیمتِ فروخت کے اعتبار سے رقم ادا کرنی ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (297/2، ط: دار الفکر)
(والمعتبر وزنهما أداء ووجوبا) لا قيمتهما.
(قوله: لا قيمتهما) نفي لقول زفر باعتبار القيمة في الأداء، وهذا إن لم يؤد من خلاف الجنس وإلا اعتبرت القيمة إجماعا كما علمت.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی