سوال:
مفتی صاحب! میں نے قسطوں پر پلاٹ بک کروایا تھا اور اس کی قسطیں پوری ہو گئی ہیں، لیکن سب لیز رہتی ہے۔ برائے مہربانی رہنمائی فرما دیں کہ اس پر زکوٰۃ فرض ہوگی یے یا نہیں اور اگر ہو گی ہے تو کب سے فرض ہوگی؟ جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ قسطوں پر پلاٹ خریدنے سے خریدار اس کا مالک بن جاتا ہے، خواہ پلاٹ پر قبضہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں اگر آپ نے مذکورہ پلاٹ تجارت (فروخت کرنے) کی نیت سے خریدا تھا تو سال گزرنے پر اس کی قیمتِ فروخت پر (بشرطیکہ اس کی مالیت دوسرے اموالِ زکوة کے ساتھ ملانے پر مقدارِ نصاب کو پہنچے) ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہے اور اگر پلاٹ خریدتے وقت فروخت کرنے کی نیت نہیں تھی تو پھر اس پلاٹ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (272/2، ط: دار الفکر)
(وَمَا اشْتَرَاهُ لَهَا) أَيْ لِلتِّجَارَةِ (كَانَ لَهَا )لِمُقَارَنَةِ النِّيَّةِ لِعَقْدِ التِّجَارَةِ
فتح القدير: (178/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".
الھندیة: (179/1، ط: دار الفکر)
الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی