Search

عنوان: بیٹوں کا اپنے مرحوم والد کی طرف سے اپنی پھوپھی کو دادا کی میراث سے ملنے والا حصہ واپس کرنا، نیز بہن، بہو اور پانچ بیٹوں میں 30 لاکھ میراث کی تقسیم (10323-No)

سوال: میرا سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب نے اپنے والد صاحب کی وراثت شرعی طور پر تقسیم نہیں کی تھی، میرے والد صاحب کے انتقال کو 22 سال ہوگئے ہیں، اور اب تک میرے بھائیوں نے وراثت تقسیم نہیں کی ہے۔ دو سال پہلے میرے ایک بھائی کا بھی انتقال ہوگیا ہے، اس کی کوئی اولاد نہیں ہے، موجودہ جائیداد میں ہماری پھوپھی، مرحوم بھائی اور پھر اس کی بیوہ کا بھی حصہ ہے، لیکن میرے بھائی وراثت کو شرعی طور پر تقسیم نہیں کرنا چاہتے ہیں، اور میں چاہتا ہوں کہ ہر حصہ دار کو اس کا شرعی حصہ مل جائے۔
میرے والد کا کوئی سگا بھائی نہیں تھا، صرف ایک سگی بہن اور ایک سوتیلی ماں شریک بہن تھی، ہم چھ بھائی تھے، چھ میں سے ایک کا دو سال پہلے انتقال ہو گیا ہے، اس کی اولاد نہیں ہے، صرف بیوہ ہے۔ ہماری والدہ کا انتقال والد صاحب سے پہلے ہوا تھا، دادا اور والد صاحب سے جو وراثت رہ گئی ہے، وہ تقریباً 30 لاکھ مالیت کی ہوگی۔
اس تمہید کے بعد میرا سوال یہ ہے کہ یہ جائیداد ہم 5 بھائیوں، ایک پھوپھی، ایک بھابھی میں کیسے تقسیم ہوگی؟ اس کے علاوہ کوئی وارث نہیں ہے اور ہماری کوئی بہن بھی نہیں ہے۔ نیز اگر میرے بھائی وراثت کو شرعی طور پر تقسیم نہیں کرتے تو مجھے کیا کرنا ہوگا؟

جواب: ۱) شریعتِ مطہرہ نے جس طرح بیٹوں کو میراث میں حصہ دیا ہے اسی طرح بیٹیوں کا حصہ بھی مقرر کیا ہے، لہذا بھائی کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ بہن کو میراث سے محروم کر دے۔
نیز میراث میں مرحوم کے ترکہ میں سے صرف وہ مال تقسیم ہوتا ہے، جس کے ساتھ دوسروں کا حق متعلق نہ ہو، اور جس مال کے ساتھ دوسروں کا حق متعلق ہو، جیسے: قرضہ وغیرہ، وہ مال تقسیم نہیں ہوتا ہے، بلکہ اصل مالک کو لوٹانا لازم ہوتا ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ چونکہ آپ کے مرحوم والد نے اپنی بہن کو اپنے والد مرحوم کی میراث میں سے حصہ نہیں دیا تھا، چونکہ ان کے لیے بہن کے حصہ پر قبضہ کرنا جائز نہیں تھا، اس لیے آپ کے والد کے ترکہ میں سے پہلے آپ کی پھوپھی کا حصہ نکالا جائے گا، پھوپھی کے حصہ کے بقدر آپ کے والد کے ترکہ میں میراث جاری نہیں ہوگی، بلکہ اب آپ بیٹوں پر اپنی پھوپھی کا حصہ واپس کرنا لازم ہوگا۔
لہذا بھتیجوں پر لازم ہے کہ اپنی پھوپھی اور بھابھی کو ان کا حق و حصہ اس دنیا میں دے دیں، ورنہ آخرت میں دینا پڑے گا اور آخرت میں دینا آسان نہیں ہوگا، حدیثِ مبارک میں اس پر بڑی وعیدیں آئی ہیں: حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (کسی کی) بالشت بھر زمین بھی بطورِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی زمین اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالی جائے گی۔
۲) مرحومین کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کو ایک سو اسی (180) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے آپ کے والد کی سگی بہن کو ساٹھ (60)، پانچوں زندہ بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو تیئس (23) اور مرحوم بیٹے کی بیوی کو پانچ (5) حصے ملیں گے، جبکہ ماں شریک سوتیلی بہن کو کچھ نہیں ملے گا۔
اس تقسیم کی رو سے تیس لاکھ (3000000) میں سے بہن کو دس لاکھ (1000000)، پانچوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو تین لاکھ تیراسی ہزار تین سو تینتس روپے اور تینتیس پیسے (3،83،333.33) اور مرحوم بیٹے کی بیوی کو تیراسی ہزار تین سو تینتس روپے اور تینتیس پیسے (83،333،33) مليں گے۔
فیصد کے اعتبار سے بہن کو %33.33 فیصد، ہر ایک بیٹے کو %12.77 فیصد اور مرحوم بیٹے کی بیوی کو %2.77 فیصد حصہ ملے گا۔
۳) جس کو حصہ مل جائے، وہ اپنے ملنے والے حصے میں سے جتنا حصہ پھوپھی اور بھابھی کا آیا ہو وہ انہیں ادا کردے، تاکہ وہ آخرت کے عذاب سے بچ سکے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 13)
تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ o

مشکوۃ المصابیح: (باب الغصب و العاریة، 254/1، ط: قدیمی)
عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين».

و فیھا ایضاً: (باب الوصایا، الفصل الثالث، 266/1، ط: قدیمی)
وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من قطع ميراث وارثه قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه".

الدر المختار مع رد المحتار: (759/6، ط: دار الفکر)
(يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق حق الغير بعينها كالرهن)
(قوله الخالية إلخ) صفة كاشفة لأن تركه الميت من الأموال صافيا عن تعلق حق الغير بعين من الأموال كما في شروح السراجية.

الدر المختار: (774/6، ط: سعید)
ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف: جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب.

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 86
beto / beton / sons ka apnay / apney marhom walid ki taraf se / say apni phophi ko dada ki miras se / say milne wala hisa wapis karna,neez behen,baho panch / 5 bacho / bachon me / mein tees / 30 lakh miras ki taqseem.

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2023.