سوال:
والد صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کو شہر میں گھر خرید کر دیا تھا، جس کے بعد سے بڑے بھائی کہتے تھے کہ مجھے گاؤں والی جائیداد میں سے حصہ نہیں چاہیے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا والد صاحب کے انتقال کے بعد گاؤں والی جائیداد میں ہمارے بڑے بھائی اور ان کی وفات ہونے کی صورت میں ان کے بیوی بچوں کا حصہ ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ اگر کوئی وارث اپنے مورث کے فوت ہونے سے پہلے میراث سے دستبرداری اختیار کرتا ہے تو اس کا شرعا کوئی اعتبار نہیں ہے، اس دستبرادی کے باوجود مورث کی وفات کے بعد اسے اپنا حصہ ملے گا، کیونکہ وراثت شریعت کی طرف سے ایک لازمی حق ہے، وارث کے نہ چاہنے کے باوجود بھی اس کا استحقاق باقی رہتا ہے۔البتہ ترکہ تقسیم ہوجائے تو اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد اپنا حصہ کسی کو دینا چاہے یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز ہے۔
اس تمہید کے بعد آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر مرحوم بیٹے نے والد صاحب کی زندگی میں گاؤں والی جائیداد سے دستبرداری کا کہا تھا تو یہ دستبرداری معتبر نہیں ہوگی، بلکہ والد صاحب کے انتقال کے بعد اس بڑے بیٹے کو بھی گاؤں والی جائیداد میں سے اس کا شرعی حصہ ملے گا، اور اگر والد صاحب کے انتقال کے بعد اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد گاؤں والی جائیداد سے دستبردار ہوا ہو تودستبردار ہونا معتبر ہوگا اور ایسی صورت میں گاؤں والی جائیداد میں حصہ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تکملة رد المحتار: (505/7، ط:دارالفکر، بیروت)
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط.
غمز عیون البصائر فی شرح الأشباہ و النظائر: (354/3)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَکْتُ حَقِّی لَمْ یَبْطُلْ حَقُّہُ؛ إذْ الْمِلْکُ لَا یَبْطُلُ بِالتَّرْک(الأشباہ)قولہ: لو قال الوارث: ترکت حقی إلخ. اعلم أن الإعراض عن الملک أو حق الملک ضابطہ أنہ إن کان ملکا لازما لم یبطل بذلک کما لو مات عن ابنین فقال أحدہما: ترکت نصیبی من المیراث لم یبطل لأنہ لازم لا یترک بالترک بل إن کان عینا فلا بد من التملیک وإن کان دینا فلا بد من الإبراء".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی