resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: مہر کی ادائیگی میں بیوی اور شوہر کے ورثاء کا اختلاف ہونے کی صورت کا حکم (27020-No)

سوال: مفتی صاحب! ہمارے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے، ہم میراث تقسیم کرنا چاہتے ہیں، میری والدہ محترمہ کہتی ہیں کہ تمہارے والد نے زندگی میں مجھے مختلف موقعوں پر خرچہ دیا ہے، لیکن مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی کہا ہو کہ یہ تمہارا مہر ہے، اب والدہ کو میراث کی تقسیم سے قبل مقرر شدہ مہر الگ دینے کا شرعی حکم کیا ہے ؟نیز آگر کوئی وارث (مثلا: میرا سوتیلا بھائی) اس پر اعتراض کرے اور وہ یہ کہے کہ یہ جھوٹ بول رہی ہیں، ایسی صورت میں اس مسئلے کا شرعی حل کیا ہوگا؟ رہنمائی فرمائیں۔

جواب: واضح رہے کہ مہر کی ادائیگی شوہر کے ذمہ لازم ہوتی ہے، شوہر اگر زندگی میں مہر ادا نہ کر سکے تو اس کے ترکے میں سے تقسیم سے قبل مہر کو ادا کیا جائے گا۔
پوچھی گئی صورت میں اگر بیوہ دعویٰ کرتی ہے کہ مہر ادا نہیں ہوا اور دیگر ورثاء میں سے کوئی اعتراض بھی نہ کرے تو بیوہ کا دعویٰ معتبر ہوگا اور ترکہ کی تقسیم سے قبل مہر کی ادائیگی لازم ہوگی، لیکن اگر کوئی وارث اعتراض کرے اور کہے کہ مہر ادا ہو چکا ہے اور بیوہ کا دعویٰ غلط ہے تو ایسی صورت میں بیوہ پر لازم ہوگا کہ وہ گواہوں کے ذریعے مہر کی عدم ادائیگی کو ثابت کرے، اگر وہ گواہی پیش نہ کر سکے تو پھر معترض وارث (سوتیلے بھائی) سے اس کے علم پر اس طرح قسم لی جائے گی کہ مہر کی عدمِ ادائیگی میرے علم میں نہیں ہے۔
پس اگر وہ قسم کھا لے تو پھر اس وارث کے حصے میں سے مہر کے بقدر حصہ نہیں دیا جائے گا، البتہ باقی ورثاء کے حصوں میں سے مہر ادا کرنا ہوگا اور اگر وہ قسم نہ کھائے تو پھر اس کے حصے سے بھی مہر کی رقم نکالی جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الھندیة: (باب في اختلاف الزوجين في المهر، 321/1، ط: دار الفکر)
ﺇﺫا ﻣﺎﺕ اﻟﺰﻭﺝ ﻭﻗﺪ ﺳﻤﻰ ﻟﻬﺎ ﻣﻬﺮا ﺛﺒﺖ ﺫﻟﻚ ﺑﺎﻟﺒﻴﻨﺔ ﺃﻭ ﺑﺘﺼﺎﺩﻕ اﻟﻮﺭﺛﺔ ﻓﻠﻮﺭﺛﺘﻬﺎ ﺃﻥ ﻳﺄﺧﺬﻭا ﺫﻟﻚ ﻣﻦ ﻣﻴﺮاﺙ اﻟﺰﻭﺝ ﻫﺬا ﺇﺫا ﻋﻠﻢ ﺃﻥ اﻟﺰﻭﺝ ﻣﺎﺕ ﺃﻭﻻ ﺃﻭ ﻋﻠﻢ ﺃﻧﻬﻤﺎ ﻣﺎﺕا ﻣﻌﺎ ﺃﻭ ﻟﻢ ﺗﻌﻠﻢ اﻷﻭﻟﻴﺔ، ﻭﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﻋﻠﻢ ﺃﻧﻬﺎ ﻣﺎﺕﺗ ﺃﻭﻻ ﻓﻴﺴﻘﻂ ﻣﻨﻪ ﻧﺼﻴﺐ اﻟﺰﻭﺝ، ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺢ اﻟﻘﺪﻳﺮ.

و فیه أيضاً: (اﻟﺒﺎﺏ اﻟﺨﺎﻣﺲ ﻭاﻟﻌﺸﺮﻭﻥ ﻓﻲ ﺇﺛﺒﺎﺕ اﻟﻮﻛﺎﻟﺔ ﻭاﻟﻮﺭاﺛﺔ ﻭﻓﻲ ﺇﺛﺒﺎﺕ اﻟﺪﻳﻦ، 407/3، ط: دار الفکر)
ﻭﺫﻛﺮ ﻓﻲ ﺃﺩﺏ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻣﻦ ﺃﺟﻨﺎﺱ اﻟﻨﺎﻃﻔﻲ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺲ اﻟﺮاﺑﻊ ﺃﻥ ﻣﻦ اﺩﻋﻰ ﺩﻳﻨﺎ ﻓﻲ ﺗﺮﻛﺔ اﻟﻤﻴﺖ ﻭﺃﻗﺎﻡ اﻟﺒﻴﻨﺔ ﻋﻠﻰ ﺫﻟﻚ ﻓﺎﻟﻘﺎﺿﻲ ﻻ ﻳﺣﻠﻒ ﻋﻠﻰ اﻻﺳﺘﻴﻔﺎء ﻋﻨﺪ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ - ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺪﻉ ﺫﻟﻚ ﺃﺣﺪ اﻟﻮﺭﺛﺔ. ﻭﻋﻠﻰ ﻗﻮﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﺃﺑﻲ ﻳﻮﺳﻒ - ﺭﺣﻤﻬﻤﺎ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ - ﻳﺤﻠﻒ ﻓﻤﺎ ﺫﻛﺮﻩ اﻟﺨﺼﺎﻑ ﻓﻲ ﺃﺩﺏ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻗﻮﻟﻬﻤﺎ ﻭﻫﻮ اﺧﺘﻴﺎﺭ اﻟﺨﺼﺎﻑ، ﺛﻢ ﺇﺫا ﺃﺭاﺩ اﻻﺳﺘﺤﻼﻑ يستحلف ﻣﺎ ﻗﺒﻀﺘﻪ ﻭﻻ ﺷﻴﺌﺎ ﻣﻨﻪ ﻭﻻ اﺭﺗﻬﻨﺖ ﺑﻪ ﻣﻨﻪ ﺭﻫﻨﺎ ﻭﻻ ﺑﺸﻲء ﻣﻨﻪ ﻭﻻ اﺣﺘﻠﺖ ﺑﻪ ﻋﻠﻰ ﺃﺣﺪ ﻭﻻ ﺑﺸﻲء ﻣﻨﻪ ﻭﻻ ﻧﻌﻠﻢ ﺭﺳﻮﻻ ﺃﻭ ﻭﻛﻴﻼ ﻟﻚ ﻗﺒﺾ ﻫﺬا اﻟﻤﺎﻝ ﻭﻻ ﺷﻴﺌﺎ ﻣﻨﻪ.
ﻭﺇﻥ ﺫﻛﺮ ﻣﻊ ﺫﻟﻚ ﻭﻻ ﻭﺻﻞ ﺇﻟﻴﻚ ﺑﻮﺟﻪ ﻣﻦ اﻟﻮﺟﻮﻩ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﻮﻁ ﻭﺇﻥ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﻟﻠﻤﺪﻋﻲ ﺑﻴﻨﺔ ﻭﺃﺭاﺩ اﺳﺘﺤﻼﻑ ﻫﺬا اﻟﻮاﺭﺙ ﻳﺴﺘﺤﻠﻒ ﻋﻠﻰ اﻟﻌﻠﻢ ﻋﻨﺪ ﻋﻠﻤﺎﺋﻨﺎ ﺭﺣﻤﻬﻢ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ .

الدر المختار مع رد المحتار: (کتاب المیراث، 760/6، ط: سعید)
(ﺛﻢ) ﺗﻘﺪﻡ (ﺩﻳﻮﻧﻪ اﻟﺘﻲ ﻟﻬﺎ ﻣﻄﺎﻟﺐ ﻣﻦ ﺟﻬﺔ اﻟﻌﺒﺎﺩ) ﻭﻳﻘﺪﻡ ﺩﻳﻦ اﻟﺼﺤﺔ ﻋﻠﻰ ﺩﻳﻦ اﻟﻤﺮﺽ ﺇﻥ ﺟﻬﻞ ﺳﺒﺒﻪ ﻭﺇﻻ ﻓﺴﻴﺎﻥ ﻛﻤﺎ ﺑﺴﻄﻪ اﻟﺴﻴﺪ.
(ﻗﻮﻟﻪ ﻭﻳﻘﺪﻡ ﺩﻳﻦ اﻟﺼﺤﺔ) ﻫﻮ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﺛﺎﺑﺘﺎ ﺑﺎﻟﺒﻴﻨﺔ ﻣﻄﻠﻘﺎ ﺃﻭ ﺑﺎﻹﻗﺮاﺭ ﻓﻲ ﺣﺎﻝ الصحة.

رد المحتار: (باب المھر، 151/3، ط: سعید)
ﻓﻲ اﻟﻤﻨﺢ ﻋﻦ اﻟﺨﺎﻧﻴﺔ: ﺭﺟﻞ ﻣﺎﺕ ﻭﺗﺮﻙ ﺃﻭﻻﺩا ﺻﻐﺎﺭا ﻓﺎﺩﻋﻰ ﺭﺟﻞ ﺩﻳﻨﺎ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﻴﺖ ﺃﻭ ﻭﺩﻳﻌﺔ ﻭاﺩﻋﺖ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﻣﻬﺮﻫﺎ، ﻗﺎﻝ ﺃﺑﻮ اﻟﻘﺎﺳﻢ ﻟﻴﺲ ﻟﻠﻮﺻﻲ ﺃﻥ ﻳﺆﺩﻱ ﺷﻴﺌﺎ ﻣﻦ اﻟﺪﻳﻦ اﻟﻮﺩﻳﻌﺔ ﻣﺎ ﻟﻢ ﻳﺜﺒﺖ ﺑﺎﻟﺒﻴﻨﺔ.

فتح القدیر: (کتاب النکاح، باب المھر، 358/3، ط: رشیدیة)
(ﻗﻮﻟﻪ ﻋﻠﻰ ﻣﺎ ﻧﺒﻴﻨﻪ) ﻳﻌﻨﻲ ﻓﻲ اﻟﻤﺴﺄﻟﺔ اﻟﺘﻲ ﺗﻠﻴﻬﺎ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻓﺼﻞ، ﻭﻫﻲ ﻣﺎ ﺇﺫا ﻣﺎﺕ اﻟﺰﻭﺟﺎﻥ ﻭﻗﺪ ﺳﻤﻰ ﻟﻬﺎ ﻣﻬﺮا ﺛﺒﺖ ﺫﻟﻚ ﺑﺎﻟﺒﻴﻨﺔ ﺃﻭ ﺑﺘﺼﺎﺩﻕ اﻟﻮﺭﺛﺔ ﻓﻠﻮﺭﺛﺘﻬﺎ ﺃﻥ ﻳﺄﺧﺬﻭا ﺫﻟﻚ ﻣﻦ ﻣﻴﺮاﺙ اﻟﺰﻭﺝ، ﻫﺬا ﺇﺫا ﻋﻠﻢ ﺃﻥ اﻟﺰﻭﺝ ﻣﺎﺕ ﺃﻭﻻ ﺃﻭ ﻋﻠﻢ ﺃﻧﻬﻤﺎ ﻣﺎتا ﻣﻌﺎ ﺃﻭ ﻟﻢ ﺗﻌﻠﻢ اﻷﻭﻟﻴﺔ؛ ﻷﻥ اﻟﻤﻬﺮ ﻛﺎﻥ ﻣﻌﻠﻮﻡ اﻟﺜﺒﻮﺕ، ﻓﻠﻤﺎ ﻟﻢ ﻳﺘﻴﻘﻦ ﺑﺴﻘﻮﻁ ﺷﻲء ﻣﻨﻪ ﺑﻤﻮﺕ اﻟﻤﺮﺃﺓ ﺃﻭﻻ ﻻ ﻳﺴﻘﻂ، ﻭﺃﻣﺎ ﺇﺫا ﻋﻠﻢ ﺃﻧﻬﺎ ﻣﺎﺗﺖ ﺃﻭﻻ ﻓﻴﺴﻘﻂ ﻣﻨﻪ ﻧﺼﻴﺐ اﻟﺰﻭﺝ؛ ﻷﻧﻪ ﻭﺭﺙ ﺩﻳﻨﺎ ﻋﻠﻰ ﻧﻔﺴﻪ.

ماخذہ التبویب دارالعلوم کراتشی: (رقم الفتویٰ: 2673/27)

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster