سوال:
ہمارے ایک رشتے دار ہیں جن کے پاس کچھ بھی مال نہیں ہے، لیکن وہ اپنے بچے کو تربیت کے لیے ایک مہنگے اسکول میں داخل کرانا چاہتے ہیں۔ کیا ان کو اسکول کی فیس کے لیے زکوة دی جاسکتی ہے؟ پیسے ان کے حوالے کیے جائیں گے اور وہ خود فیس ڈائریکٹ اسکول میں جمع کروائیں گے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر آپ کے مذکورہ رشتے دار مستحق زکوٰۃ ہیں تو انہیں زکوٰۃ کی رقم کا مالک بنا سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (التوبة، الآية: 60)
إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱلۡعَٰمِلِينَ عَلَيۡهَا وَٱلۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَٱلۡغَٰرِمِينَ وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٞ o
رد المحتار: (343/2، ط: دار الفکر)
(قوله: لا يملك نصابا) قيد به؛ لأن الفقر شرط في الأصناف كلها إلا العامل وابن السبيل إذا كان له في وطنه مال بمنزلة الفقير بحر، ونقل ط عن الحموي أنه يشترط أن لا يكون هاشميا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی