عنوان: قسطوں پر خریدے گئی دکان پر زکوۃ کا حکم(10376-No)

سوال: میں نے پچھلے سال رمضان سے پہلے ایک دکان قسطوں پر 32 لاکھ کی خریدی جو کہ اس نیت سے لی تھی کہ جب بھی اچھے پیسے ملیں گے، فروخت کردوں گا، اس ایک سال میں اس کے 15لاکھ روپے ادا کر چکا ہوں، دوکان ابھی تک بلڈر کے پاس ہی ہے اور میں نے فروخت کرنے کا بول دیا ہے۔ اب ایسی صورت میں رہنمائی فرمائیں کہ 15 لاکھ کی رقم پر زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی؟

جواب: واضح رہے کہ قسطوں پر دکان خریدنے سے خریدار اس کا مالک بن جاتا ہے، خواہ اس دکان پر قبضہ کیا ہو یا نہ کیا ہو، لہذا اگر آپ نے یہ دکان تجارت کی نیت سے خریدی ہے تو اس کی موجودہ قیمت فروخت اگر نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو سال گزرنے پر جن قسطوں کی ادائیگی زکوۃ کے رواں سال میں واجب ہوگئی تھی، وہ کل رقم سے منہا کرنے کے بعد بقیہ رقم کی زکوۃ ادا کی جائے گی، البتہ ادا شدہ قسطوں (paid amount) پر زکوٰۃ لازم نہیں ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

الدر المختار: (272/2، ط: دار الفکر)
(وَمَا اشْتَرَاهُ لَهَا) أَيْ لِلتِّجَارَةِ (كَانَ لَهَا )لِمُقَارَنَةِ النِّيَّةِ لِعَقْدِ التِّجَارَةِ

فتح القدير: (178/2، ط: دار الکتب العلمیة)
ومن اشترى جاريةً للتجارة ونواها للخدمة بطلت عنها الزكاة)؛ لاتصال النية بالعمل وهو ترك التجارة، (وإن نواها للتجارة بعد ذلك لم تكن للتجارة حتى يبيعها فيكون في ثمنها زكاة)؛ لأن النية لم تتصل بالعمل إذ هو لم يتجر فلم تعتبر".

الھندیة: (179/1، ط: دار الفکر)
الزَّكَاةُ وَاجِبَةٌ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ كَائِنَةً مَا كَانَتْ إذَا بَلَغَتْ قِيمَتُهَا نِصَابًا مِنْ الْوَرِقِ وَالذَّهَبِ

واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 244 Mar 14, 2023

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Zakat-o-Sadqat

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.