سوال:
میری والدہ کے خالہ زاد بھائی جو کراچی میں ریٹائر ہونے کے ساتھ ہی ایک مہلک بیماری کے باعث صاحبِ فراش ہوگئے اور کسی قابل نہیں رہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے خاندان والے کچھ پیسے ماہانہ اخراجات پورا کرنے کیلئے جمع کررہے ہیں، اگرچہ وہ اپارٹمنٹ ان کے نام پر ہے، شاید گھر میں ٹی وی بھی ہے، مگر ان کی کوئی آمدنی نہیں، ایک بیٹا ساتھ ہی رہتا ہے مگر اس کی قلیل آمدنی اس کی اپنی فیملی کے لیے مشکل سے ہوتی ہے۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا اس اجتماعی کوششوں میں ان کو بتائے بغیر زکوۃ کی نیت سے ان کو پیسے بھیج سکتے ہیں؟
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں مذکورہ شخص چونکہ اپارٹمنٹ میں خود رہائش پذیر ہے، اس لیے اس اپارٹمنٹ کا شمار ضروریات اصلیہ میں ہوگا، اس اپارٹمنٹ کے علاوہ اگر ان کی ملکیت میں سونا، چاندی، مال تجارت، نقدی یا گھر میں ضرورت اصلیہ (روزمرہ استعمال کی اشیاء) سے زائد سامان ہو، اور ان پانچوں میں سے بعض یا کل کا مجموعہ یا ان میں سے کسی ایک کی قیمت اگر چاندی کے نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) تک نہیں پہنچتی ہو تو مذکورہ شخص کو زکوۃ دی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (347/2، ط: دار الفکر)
(قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی