سوال:
میری بیوہ بھابھی ہیں، ان کے پاس ساڑھے سات تولہ سونے سے کم مقدار میں سونا ہے، کیا میں ہر ماہ زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کرسکتا ہوں؟
جواب: اگر مذکورہ خاتون کے پاس سوال میں ذکر کردہ سونے کے ساتھ کچھ نقدی، چاندی یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہو اور وہ مل کر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو اس صورت میں ان کے لیے زکوۃ لینا جائز نہیں ہوگا، اور اگر مذکورہ سونے کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہ ہو تو انہیں زکوۃ دینا جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (التوبة، الآية: 60)
إِنَّمَا ٱلصَّدَقَٰتُ لِلۡفُقَرَآءِ وَٱلۡمَسَٰكِينِ وَٱلۡعَٰمِلِينَ عَلَيۡهَا وَٱلۡمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمۡ وَفِي ٱلرِّقَابِ وَٱلۡغَٰرِمِينَ وَفِي سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱبۡنِ ٱلسَّبِيلِۖ فَرِيضَةٗ مِّنَ ٱللَّهِۗ وَٱللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٞo
الدر المختار: (347/2، ط: دار الفكر)
(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی