سوال:
جب حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ کی وفات ہوئی تو کہرام مچ گیا جنازہ تیار کر کے ایک بڑے میدان میں جنازہ پڑھنے کے لیے لایا گیا، لوگوں کی بڑی تعداد جنازہ پڑھنے کے لیے نکل پڑی تھی، جب جنازہ پڑھانے کا وقت آیا تو ایک آدمی آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ میں حضرت کا وصی ہوں، مجھے حضرتؒ نے وصیت کی تھی، میں اس مجمع تک وہ وصیت پہنچانا چاہتا ہوں، مجمع خاموش ہوگیا، خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؒ نے یہ وصیت کی کہ میرا جنازہ وہ شخص پڑھائے جس کے اندر چار خوبیاں ہوں:
۱) زندگی میں اس کی تکبیر اولیٰ کبھی قضا نہ ہوئی ہو (۲) اس کی تہجد کی نماز کبھی قضا نہ ہوئی ہو (۳)اس نے غیر محرم پر کبھی بھی بری نظر نہ ڈالی ہو (۴) اتنا عبادت گزار ہو حتیٰ کہ اس نے عصر کی سنتیں بھی کبھی نہ چھوڑی ہوں۔ لوگوں نے دیکھا یہ وقت کا بادشاہ شمس الدین التمش تھا جس نے قطب الدین بختیار کاکیؒ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ کیا یہ واقعہ مستند ہے؟ (تاریخ مشائخ چشت صفحہ نمبر 167)
جواب: سوال میں ذکرکردہ واقعہ سلسلہ چشتیہ کے مشائخ سے متعلق لکھی گئی بعض معتبر کتب جیسے سیر الاقطاب وغیرہ میں ذکر کیا گیا ہے، لہذا اس کو ایک تاریخی واقعے کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سیر الاقطاب للشیخ الھدایة: (ص: 160)
جنازه مرتب گشت سلطان شمس الدین اولیا کہ مرید خاص و خلیفه آن حضرت بود و اکثر فقرا و خلفا و مشائخ و خوانین و عوامی خلایق که در دہلی مسکن داشتند همه ہا حاضر آمدند که مولانا ابوسعید گفت حضرت خواجه با وصیت فرموده که امامت نماز جنازه من کسی کند که از ا بندش بحرام نکشاده باشد و سنت نماز عصر وتکبیر اولی گاهی ازو فوت نشده باشد سلطان شمس الدین تا دیری خاموش ماند و چپ و راست نگاه میکرو تاکسی بدین صفات حسنه پیدا شو و ہیچکس خود را ظاهر نساخت لاچار سلطان خود با ماست پیش آمد و گفت میخواستم کہ کسی برحال من مطلع باشد لیکن چون حضرت خواجه ما چنان فرموده است چاره ندارم پس نماز جنازہ گزراندند.
کذا فی تاریخ مشائخ چشت لمولانا زکریا الکاندهلوی: (174، ط: مجلس نشریات اسلام)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی