سوال:
۱) کسی بھی کذاب مدعی نبوت کو نبی، ولی یا مسلمان کہنے والے کا حکم کیا ہے؟
۲) کسی بھی جھوٹے مدعی نبوت کی قائم کردہ تنظیموں کے زیر اہتمام پروگرام کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
۳) کسی بھی جھوٹے مدعی نبوت کو اپنا پیر و مرشد کہنا یا خود کو اس کا خلیفہ، نائب یا قائم قام کہنے والے کے متعلق شریعت کا حکم کیا ہے؟
۴) کفریہ عقائد سے آگاہ ہونے کے باوجود ان کے ساتھ نرم گوشہ رکھنے والوں کے متعلق اسلامی شریعت کا حکم کیا ہے؟
جواب: ۱۔۲) واضح رہے کہ حضرت محمد ﷺ اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں، ان کے بعد اگر کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے تو ایسا شخص اور اس کے تمام پیروکار جو اسے ولی سمجھیں، اپنا پیر و مرشد مانیں یا خود کو اس کا خلیفہ کہیں، یہ تمام لوگ کافر، بدترین گمراہ اور جھوٹے ہیں، حتی کہ اگر کوئی اس کے نبوت کے دعویٰ کا علم ہونے کے باوجود اسے مسلمان سمجھے تو وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
۳) جھوٹے مدعیانِ نبوت یا ان کے پیروکاروں کی قائم کردہ تنظیموں کے زیرِ اہتمام پروگرام کرنا جائز نہیں ہے۔
۴) نرم گوشہ رکھنے سے اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ انہیں مسلمان سجھتا ہے تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الكريم: (الأحزاب، الاية: 40)
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَآ أَحَدٖ مِّن رِّجَالِكُمۡ وَلَٰكِن رَّسُولَ ٱللَّهِ وَخَاتَمَ ٱلنَّبِيِّۧنَۗ وَكَانَ ٱللَّهُ بِكُلِّ شَيۡءٍ عَلِيمٗاo
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 4416، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا مسدد: حدثنا يحيى، عن شعبة، عن الحكم، عن مصعب بن سعد، عن أبيه، "أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - خرج إلى تبوك واستخلف عليا، فقال: أتخلفني في الصبيان والنساء؟ قال: ألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا أنه ليس نبي بعدي" وقال أبو داود: حدثنا شعبة، عن الحكم: سمعت مصعبا.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی