سوال:
گاؤں کی مسجد کی بجلی کو لوگوں اور نمازیوں کی فلاح اور آسانی کے لیے گلیوں میں روشنی کے لیے استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ مسجد کی بجلی اصلاً مسجد کی ضروریات میں استعمال کرنے کے لیے خاص ہوتی ہے، مسجد کے مفاد کے خلاف اور چندہ دینے والوں کی اجازت کے بغیر اس کے استعمال کی شرعاً اجازت نہیں، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر مسجد کے لیے چندہ دینے والوں کی طرف سے کوئی ممانعت نہ ہو تو اہل محلّہ کے اجتماعی مفاد اور نمازیوں کی سہولت کی خاطر مسجد کی بجلی کو مسجد کے قریب قریب کی گلیوں کی روشنی کے لیے بقدر ضرورت استعمال کرنے کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ اس سے مسجد کا کوئی نقصان نہ ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (459/2، ط: دار الفکر)
ولو وقف على دهن السراج للمسجد لا يجوز وضعه جميع الليل بل بقدر حاجة المصلين ويجوز إلى ثلث الليل أو نصفه إذا احتيج إليه للصلاة فيه، كذا في السراج الوهاج ولا يجوز أن يترك فيه كل الليل إلا في موضع جرت العادة فيه بذلك كمسجد بيت المقدس ومسجد النبي - صلى الله عليه وسلم - والمسجد الحرام، أو شرط الواقف تركه فيه كل الليل كما جرت العادة به في زماننا، كذا في البحر الرائق.إن أراد الإنسان أن يدرس الكتاب بسراج المسجد إن كان سراج المسجد موضوعا في المسجد للصلاة قيل: لا بأس به وإن كان موضوعا في المسجد لا للصلاة بأن فرغ القوم من صلاتهم وذهبوا إلى بيوتهم وبقي السراج في المسجد قالوا: لا بأس بأن يدرس به إلى ثلث الليل، وفيما زاد على الثلث لا يكون له حق.
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام: (85/1، ط: دار الجيل)
لما كان شرط الواقف كنص الشارع رئي أنه كما يجب مراعاة نص الشارع واتباعه يجب أيضا مراعاة واتباع شرط الواقف الموافق للشرع…أما إذا كان شرط الواقف مخالفا للشرع الشريف فلا يتبع هذا.
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالافتاء الإخلاص،کراچی