سوال:
مفتی صاحب! اگر کوئی شخص مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے کچھ تاخیر سے پہنچے اور اُسے مسجد بند ملے تو کیا شریعتِ مطہّرہ میں نماز کے بعد مسجد بند کرنے کی اجازت ہے؟
جواب: واضح رہے کہ عام حالات میں مسجد بند کرنا مکروہ ہے، البتہ اگر مسجد کی اشیاء چوری ہونے کا خوف ہو یا کسی اور ضرر کا اندیشہ ہو تو نماز کے اوقات کے علاوہ مسجد بند کرنے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدّر المختار مع ردّ المحتار:(مطلب فی احکام المساجد،656/1،ط: سعید)
ﻗﺎﻝ ﻓﻲ اﻟﺒﺤﺮ: ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻛﺮﻩ ﻷﻧﻪ ﻳﺸﺒﻪ اﻟﻤﻨﻊ ﻣﻊ اﻟﺼﻼﺓ، ﻗﺎﻝ ﺗﻌﺎﻟﻰ- {ﻭﻣﻦ ﺃﻇﻠﻢ ﻣﻤﻦ ﻣﻨﻊ ﻣﺴﺎﺟﺪ اﻟﻠﻪ ﺃﻥ ﻳﺬﻛﺮ ﻓﻴﻬﺎ اﺳﻤﻪ}
[ اﻟﺒﻘﺮﺓ: 114] ۔ ﻭﻣﻦ ﻫﻨﺎ ﻳﻌﻠﻢ ﺟﻬﻞ ﺑﻌﺾ ﻣﺪﺭﺳﻲ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﻣﻦ ﻣﻨﻌﻬﻢ ﻣﻦ ﻳﺪﺭﺱ ﻓﻲ ﻣﺴﺠﺪ ﺗﻘﺮﺭ ﻓﻲ ﺗﺪﺭﻳﺴﻪ، ﻭﺗﻤﺎﻣﻪ ﻓﻴﻪ.
(ﻗﻮﻟﻪ ﺇﻻ ﻟﺨﻮﻑ ﻋﻠﻰ ﻣﺘﺎﻋﻪ) ﻫﺬا ﺃﻭﻟﻰ ﻣﻦ اﻟﺘﻘﻴﻴﺪ ﺑﺰﻣﺎﻧﻨﺎ ﻷﻥ اﻟﻤﺪاﺭ ﻋﻠﻰ ﺧﻮﻑ اﻟﻀﺮﺭ، ﻓﺈﻥ ﺛﺒﺖ ﻓﻲ ﺯﻣﺎﻧﻨﺎ ﻓﻲ ﺟﻤﻴﻊ اﻷﻭﻗﺎﺕ ﺛﺒﺖ ﻛﺬﻟﻚ ﺇﻻ ﻓﻲ ﺃﻭﻗﺎﺕ اﻟﺼﻼﺓ، ﺃﻭ ﻻ ﻓﻼ، ﺃﻭ ﻓﻲ ﺑﻌﻀﻬﺎ ﻓﻔﻲ ﺑﻌﻀﻬﺎ، ﻛﺬا ﻓﻲ اﻟﻔﺘﺢ. ﻭﻓﻲ اﻟﻌﻨﺎﻳﺔ: ﻭاﻟﺘﺪﺑﺮ ﻓﻲ اﻝﻏﻠﻖ ﻷﻫﻞ اﻟﻤﺤﻠﺔ، ﻓﺈﻧﻬﻢ ﺇﺫا اﺟﺘﻤﻌﻮا ﻋﻠﻰ ﺭﺟﻞ ﻭﺟﻌﻠﻮﻩ ﻣﺘﻮﻟﻴﺎ ﺑﻐﻴﺮ ﺃﻣﺮ اﻟﻘﺎﺿﻲ ﻳﻜﻮﻥ ﻣﺘﻮﻟﻴﺎ اﻧﺘﻬﻰ ﺑﺤﺮ ﻭﻧﻬﺮ.
البحر الرائق:(باب ما یفسد الصلاۃ وما یکرہ فیها،59/2،ط: رشیدیة)
فتاویٰ محمودیہ:(باب المتفرقات،317/5،ط:ادارہ الفاروق کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی