سوال:
تقریباً ستر سے اسی سال قبل ایک شخص نے اپنی ملکیت کی زمین کا ایک حصہ ٹنڈو حیدر کے لیے قبرستان کے طور پر وقف کیا تھا۔ اُس وقت ٹنڈو حیدر کی آبادی بہت کم تھی، اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹنڈو حیدر کی آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہے اور مختلف نئی اسکیمیں اور نئی پلاٹنگز وجود میں آ چکی ہیں۔
وقف شدہ زمین تقریباً ساڑھے پانچ ایکڑ کے قریب تھی، مگر کسی باقاعدہ نگرانی یا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اس میں سے دو (2) ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ ہو چکا ہے، اس پر بھی مقامی افراد کی کوششیں جاری ہیں کہ کسی طرح وہ قبضہ شدہ زمین واپس حاصل کرکے دوبارہ قبرستان کے رقبے میں شامل کی جائے۔
چونکہ اس وقف کو طویل عرصہ (70–80 سال) گزر چکا ہے، اس لیے یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ واقف نے وقف کے وقت کون سے الفاظ استعمال کیے تھے، یعنی آیا یہ وقف خاص طور پر ٹنڈو حیدر کے مقامی لوگوں کے لیے کیا گیا تھا یا تمام مسلمانوں کے لیے عمومی وقف تھا، کچھ معلوم نہیں۔
ان نئی اسکیموں اور پلاٹنگز کے اصول کے مطابق قبرستان، مسجد، ہسپتال اور پارک وغیرہ کے لیے علیحدہ جگہ چھوڑنی چاہیے تھی، مگر کسی اسکیم یا پلاٹنگ والے نے قبرستان کے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں کی۔
ایسی صورت میں ٹنڈو حیدر کے پرانے مقامی باشندوں نے ایک مقامی کمیٹی بنائی، جس نے یہ فیصلہ کیا کہ’’ٹنڈو حیدر قبرستان میں صرف ٹنڈو حیدر کے مقامی افراد کو دفن کیا جائے گا اور نئی اسکیموں یا نئی پلاٹنگز میں رہائش رکھنے والے نئے لوگوں کو وہاں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘‘۔
اب سوال یہ ہے کہ:
1)کیا مقامی کمیٹی کا یہ فیصلہ شرعاً درست ہے؟
2) کیا وقف شدہ زمین کے قبرستان میں غیر مقامی یا نئی اسکیم کے افراد کو دفنانے سے روکا جا سکتا ہے؟
3) اگر نئی اسکیم والوں نے اپنی اسکیموں میں قبرستان کی جگہ نہیں رکھی تو اس کا شرعی حل کیا ہے؟
4) کیا قبضہ شدہ زمین کو واپس لے کر قبرستان میں شامل کرنا شرعاً ضروری اور جائز عمل ہے؟
تنقیح: محترم اس بات کی وضاحت کردیں کہ یہ نئی اسکیمیں ٹنڈو حیدر کی زمین پر ہی آباد ہوچکی ہیں؟ نیز یہ بھی بتائیں کہ مذکورہ زمین قبرستان کے لیے وقف ہونے کے بعد اس میں صرف ٹنڈو حیدر کے مقامی لوگوں میں سے مرنے والوں کی تدفین ہوتی رہی ہے، یا باہر کے لوگوں کو بھی دفن کیا جاتا رہا ہے؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح:
جس زرعی زمینوں پر اب نئی اسکیمیں آباد ہوئی ہیں جن میں اکثر لوگ باہر سے آئیں ہیں، مقامی لوگ بہت کم ہیں۔
جی اب تک گاؤں کے لوگوں کا اس طرف دہیان نہیں تھا تو ہر ایک تدفین کرلیتا تھا ، لیکن ہندو یا شیعہ کو کبھی دفن نہیں کرنے دیا گیا، ان ایک کمیٹی تشکیلل دی گئی جو قبرستان کی مکمل بونڈری وال اور نگرانی کرے گی، ان کے لیے اصول ہیں، کیا وہ کسی کو تدفین سے روک سکتے ہیں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں جب مذکورہ قبرستان کے وقف ہونے کے بعد اتنا طویل عرصہ (70-80 سال) گزر چکا ہے اور اس دوران بغیر کسی تفریق کے مقامی اور غیر مقامی سب لوگوں کی تدفین اس میں ہوتی رہی ہے، نیز کسی غیر مقامی شخص کی تدفین پر اب تک کوئی روک تھام بھی نہیں ہوئی ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وقف کرنے والے کی طرف سے یہ قبرستان مقامی اور غیر مقامی سب کے لیے وقف کیا گیا تھا، لہٰذا اب اس قبرستان کو صرف ٹنڈو حیدر کے مقامی لوگوں کے لیے خاص کرکے غیر مقامی لوگوں کو اس میں دفنانے سے روکنا درست نہیں ہے۔
تاہم ان نئی اسکیموں کے ذمّہ داروں کو چاہیے کہ اپنے اصول کے مطابق ہر اسکیم کے لیے الگ سے قبرستان کا انتظام کریں، تاکہ ان اسکیموں کے رہائشیوں اور ٹنڈو حیدر کے مقامی باشندوں کو اپنے مرحومین کی تدفین کے سلسلے میں کسی مشکل اور پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
واضح رہے کہ قبرستان کی زمین پر قبضہ کرنا ناجائز ہے، لہٰذا اگر واقعتاً مذکورہ قبرستان کی دو ایکڑ زمین پر کسی نے ناجائز قبضہ کر رکھا ہے تو اس قبضہ شدہ زمین کو واپس کرکے قبرستان میں شامل کروانا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الدلائل:
رد المحتار: (413/4، ط: دار الفکر)
مشهور اشتبهت مصارفه وقدر ما يصرف إلى مستحقيه قال: ينظر إلى المعهود من حاله فيم سبق من الزمان من أن قوامہ كيف يعملون فيه وإلى من يصرفونه، فيبنى على ذلك لأن الظاهر أنهم كانوا يفعلون ذلك على موافقة شرط الواقف وهو المظنون بحال المسلمين فيعمل على ذلك.
عمدة القاري: (179/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
وذلك لأن المقابر وقف من أوقاف المسلمين لدفن موتاهم لا يجوز لأحد أن يملكها.
اسلام کا نظامِ اوقاف: (ص: 400، ط: ادارہ اسلامیات)
کتاب النوازل: (596/17، ط: المرکز العلمی للنشر والتحقیق)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی