resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: ٹرسٹ سے متعلق چند سوالات (32398-No)

سوال: محترم مفتی صاحب! میں نے ایک رفاہی ٹرسٹ قائم کیا ہے جس کے چند شرعی و عملی پہلوؤں سے متعلق درج ذیل سوالات ہیں:
1) ٹرسٹ کا مقصد یہ ہے کہ مختلف افراد کے عطیات جمع ہو کر بڑی سطح پر غریبوں اور مستحقین کی مدد ہو۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ عام طور پر لوگ جب دو، تین یا چار سو روپے کہیں خرچ کرتے ہیں تو وہ ایک ہی جگہ خرچ ہوتے ہیں، اس لیے ہم انہیں یہ ترغیب دیتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے ٹرسٹ میں یہ رقم جمع کرائیں تو ہم ان کے عطیات کو تھوڑا تھوڑا کر کے مختلف منصوبوں (جیسے راشن، میڈیکل، تعمیرِ مساجد و مدارس، قدرتی آفات وغیرہ) میں خرچ کرتے ہیں تاکہ ان کو زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب حاصل ہو۔ عملی طور پر جب کسی پروجیکٹ میں رقم خرچ ہوتی ہے، تو وہ تمام اراکین کے فنڈز سے تناسب کے لحاظ سے کٹتی ہے، مثلاً کسی کے 200، کسی کے 300، کسی کے 600 روپے۔ بعد میں اراکین کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کے عطیات فلاں جگہ خرچ ہوئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح اجتماعی رقم خرچ کر کے اراکین کو یہ بتانا شرعاً درست ہے کہ آپ کے عطیات فلاں جگہ خرچ ہوئے؟
2) ٹرسٹ کے لیے علیحدہ بینک اکاؤنٹ نہیں بنایا گیا، بلکہ میرا ذاتی اکاؤنٹ ہی استعمال ہوتا ہے۔ اس میں میرے ذاتی پیسے بھی رہتے ہیں (مثلاً دو، تین، چار ہزار روپے) اور ٹرسٹ کے عطیات بھی اسی میں آتے ہیں۔ میں ہمیشہ اپنے ذاتی پیسوں کی حد تک ہی خرچ کرتا ہوں، اس سے زیادہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت میں میرے ذاتی اور ٹرسٹ کے پیسے شرعاً مخلوط (mix) شمار ہوں گے؟ اور کیا مالی شفافیت کے لیے علیحدہ اکاؤنٹ بنانا شرعاً ضروری یا بہتر ہے؟
3) میں زیرِ تعلیم ہوں اور میرے والدین حیات ہیں۔ مالی خدمت فی الحال ممکن نہیں، مگر میں اپنے نوافل، صدقاتِ نافلہ، تلاوت، اذکار اور دیگر نیک اعمال کا ثواب والدین کے نام منسوب کر دیتا ہوں۔ کیا والدین کے حیات ہونے کی حالت میں ایسا کرنا درست ہے اور کیا ان تک ثواب پہنچتا ہے؟

جواب: 1) اگر عطیہ دینے والوں نے کسی مخصوص کام میں خرچ کرنے کی شرط نہیں لگائی، بلکہ آپ کی اپنی صوابدید پر خرچ کرنے کی اجازت دی ہے تو ایسی صورت میں اجتماعی رقم کو خرچ کرکے اراکین کو یہ بتانا شرعا جائز ہے کہ رقم کہاں خرچ ہوئی۔
2) الگ اکاونٹ بنانا چاہیے، تاکہ ذاتی رقم اور صدقات و عطیات کی رقم مخلوط (mix) نہ ہو، اور حساب کتاب اور آڈٹ (audit) میں آسانی ہو۔
3) جی ہاں! نفلی اعمال کرکے ان کا ثواب زندہ والدین کو بھی پہنچایا جاسکتا ہے، جو اللہ کے حکم سے ان کو پہنچتا ہے۔
واضح رہے کہ ٹرسٹ چلانا ایک بڑی ذمہ داری ہے، جس میں لوگوں کے زکوٰۃ، صدقات و عطیات کی وصولی اور اس کے خرچ کا انتظام کرنا ہوتا ہے، اور ان میں سے ہر مد کے احکام میں فرق ہوتا ہے، جس میں سخت احتیاط کرنے کی ضرورت ہے، اس لیے یہ کام اگر کرنا ہو تو مستند علمائے کرام کی زیرِ نگرانی اس کو انجام دینا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

رد المحتار: (2/ 243، ط: دار الفكر)
«وأما عندنا فالواصل إليه نفس الثواب. وفي البحر: من صام أو صلى أو تصدق وجعل ثوابه ‌لغيره من الأموات والأحياء جاز، ويصل ثوابها إليهم عند أهل السنة والجماعة كذا في البدائع، ثم قال: وبهذا علم أنه لا فرق بين أن يكون المجعول له ميتا أو حيا. والظاهر أنه لا فرق بين أن ينوي به عند الفعل للغير أو يفعله لنفسه ثم بعد ذلك يجعل ثوابه ‌لغيره، لإطلاق كلامهم»

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Miscellaneous