سوال:
گاؤں میں ہمارے نانا جان کی زمین تھی، جس کے ہم پندرہ لوگ وارث ہیں، لیکن میرے بڑے بھائی نے وہ زمین بیچ دی اور ہم ورثاء میں سے کسی کو کچھ نہیں دیا اور پتا بھی نہیں لگنے دیا، لیکن بعد میں ہمیں معلوم ہوا۔ وہ بھائی غیر شادی شدہ ہیں اور ان کی عمر تقریبا ساٹھ سال ہے اور ان کو شگر بھی ہے، وہ انسولین لیتے ہیں، اب اگر میں ان پر کیس کرتا ہوں تو ان کو جیل جانا پڑے گا اور اللہ نہ کرے اگر ان کا جیل میں انتقال ہوجاتا ہے تو کیا مجھ ہر اس کا وبال آئے گا یا میں اپنا حق چھوڑ دوں؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں آپ اور دیگر ورثاء کا بڑے بھائی سے اپنے حق کا مطالبہ کرنا جائز ہے، تاہم احادیث میں اپنے جائز حق کو چھوڑنے کے بھی بہت فضائل آئے ہیں، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: "میں اس شخص کو جنت کے اطراف میں گھر کی ضمانت دیتا ہوں جس نے حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دیا (اور اپنے حق سے دستبردار ہوگیا)" (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر:4800)
لہذا آپ اس فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے اپنا حق چھوڑ سکتے ہیں، البتہ اگر آپ اپنا حق وصول کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں، آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے، لیکن حتی الامکان اس بات کی کوشش کی جائے کہ آپس میں معاملات افہام و تفہیم سے حل ہوجائیں تاکہ عدالت جانے کی نوبت پیش نہ آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن ابی داؤد: (رقم الحديث: 4800، ط: دار الرسالة العالمیة)
حدثنا محمد بن عثمان الدمشقي أبو الجماهر، حدثنا أبو كعب أيوب بن محمد السعدى، حدثني سليمان بن حبيب المحاربى
عن أبي أمامة، قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-صلى الله عليه وسلم-: " أنا زعيم ببيت في ربض الجنة، لمن ترك المراء وإن كان محقا، وببيت في وسط الجنة
الأشباه والنظائر: (388/2، ط: ادارة القرآن)
لوقال الوارث :تركت حقي لا يبطل حقه ؛ إذالملك لايبطل بالترك ،والحق يبطل به.
تکملة رد المحتار: (505/7، ط: دار الفکر)
الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی