سوال:
میں نے سن 2000 میں اپنے پیسوں سے تھیلیوں کا کاروبار شروع کیا اور اپنے ساتھ اپنے چھوٹے بھائی کو بھی رکھا، لیکن بھائی کو رکھتے ہوئے اس کی حیثیت (پارٹنر یا ملازم) کو واضح نہیں کیا ہے اور اس وقت اس کی کوئی سیلری وغیرہ بھی مقرر نہیں کی، پھر کچھ عرصہ بعد میں نے اس سے کہا کہ اس کاروبار میں جو کچھ بھی ہے وہ میرے اور تیرے درمیان آدھا آدھا ہے اور اس بات کو میں نے کئی لوگوں کے سامنے بھی کہا، اور اسی بات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میرے چھوٹے بھائی نے کاروبار میں محنت بھی کی اور الحمد للہ ہمارا کام خوب چل رہا ہے، یہانتکہ 2018 میں جب میں اپنے بھائی کے رشتہ کے لیے گیا تو اس کے سسر کو بھی یہی کہا کہ جو کچھ بھی ہے وہ میرے اور اس کے درمیان آدھا آدھا ہے۔
اب کچھ مسائل کی وجوہات پر ہم علیحدہ علیحدہ ہونا چارہے ہیں، آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ میرے اس کہنے کہ "اس کاروبار اور اس سے بننے والی چیزوں میں جو کچھ ہے وہ میرے اور میرے چھوٹے بھائی کے درمیان آدھا آدھا ہے" کی شرعی کیا حیثیت ہے؟ کیا میرے چھوٹے بھائی کا اس میں آدھا حصہ ہوگا؟ اور اگر آدھا حصہ نہیں ہوگا تو ہمارے علیحدہ ہونے کی صورت میں مجھے چھوٹے بھائی کو کتنا دینا ہوگا؟
نوٹ: چھوٹے بھائی نے اپنی کمیٹی کھلنے پر بیس ہزار دیے تھے، وہ کمیٹی بھی اسی دکان کے پیسوں سے بھری تھی۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں اپنے بھائی کو یہ کہنا کہ "اس کاروبار میں جو کچھ بھی ہے، وہ میرے اور تمہارے درمیان آدھا آدھا ہے" اس کی شرعی حیثیت ہبہ (gift) کی ہے، اور ہبہ تب مکمل ہوتا ہے جب ہبہ کی جانے والی چیز اگلے شخص کے قبضے میں دے دی جائے، لہذا اگر آپ نے مالکانہ حقوق کے ساتھ آدھا حصہ بھائی کے قبضے میں دے دیا تھا تو وہ اس کا شمار ہوگا، اور اگر صرف زبانی بات کی تھی تو آدھا حصہ بھائی کا نہیں ہوگا، ایسی صورت میں اس تمام مدت میں آپ کے ساتھ مل کر کام کرنے کی وجہ سے بھائی اجرت مثل (اتنی تنخواہ/مزدوری جو اس جیسے کام کی اس علاقے میں ہوتی ہے) کا مستحق ٹھہرے گا، کیونکہ آج کل عرف یہ ہے کہ کوئی اتنی مدت تک مفت میں کام نہیں کرتا، تاہم فریقین باہمی رضامندی سے مصالحت کی کوئی صورت بھی اختیار کرسکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (42/6، ط: دار الفکر)
وفي الأشباه: استعان برجل في السوق ليبيع متاعه فطلب منه أجرا فالعبرة لعادتهم، وكذا لو أدخل رجلا في حانوته ليعمل له.
وفي الدرر: دفع غلامه أو ابنه لحائك مدة كذا ليعلمه النسج وشرط عليه كل شهر كذا جاز، ولو لم يشترط فبعد التعليم طلب كل من المعلم والمولى أجرا من الآخر اعتبر عرف البلدة في ذلك العمل.
الفتاوى الهندية: (378/4، ط: دار الفکر)
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية.
الهداية: (222/3، ط: دار احیاء التراث العربی)
والقبض لا بد منه لثبوت الملك.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی