سوال:
ہمارا کاروبار ہے ٹی آر گارڈ سریا وغیرہ کا، لوگ ہمارے پاس آکر رقم جمع کروا جاتے ہیں کہ مال ہم بعد میں لے جائیں گے۔ ہم ان سے دو باتیں طے کرتے ہیں: (1) آپ اپنا مال تین ماہ کے اندر اندر لے جائیں گے۔ (2) آج کے موجودہ ریٹ کے مطابق رقم جمع کرلیتے ہیں، جس دن گاہک نے مال اٹھانا ہے، اگر اس دن ریٹ بڑھ چکا ہو تو اس سے مزید رقم نہیں لی جاتی ہے، لیکن اگر ریٹ کم ہوگیا ہو تو اس کو کم ریٹ پر مال دیا جاتا ہے۔ نیز اگر گاہک کو رقم واپس چاہیے تو جس وقت چاہے اپنی رقم واپس لے جائے اور بہت سارے لوگ اس طرح اپنی رقم لے بھی جاتے ہیں۔ ایک مولانا صاحب جو ہماری دکان پر تشریف لائے تھے، انہوں نے کہا کہ یہ طریقہ جائز نہیں ہے، چونکہ پوری مارکیٹ میں یہ طریقہ رائج ہے، اگر یہ جائز نہیں ہے تو جائز طریقہ بھی بتادیں۔
جواب: سوال میں ذکر کی گئی صورت میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رقم دیتے وقت خرید و فروخت کا حتمی سودا نہیں ہوتا، (یہی وجہ ہے کہ بعد میں اگر کوئی اپنی رقم واپس لینا چاہے تو لے سکتا ہے، نیز حتمی قیمت بھی مال اٹھانے کے وقت طے ہوتی ہے) بلکہ سودا بعد میں کیا جاتا ہے، اور پیشگی دی جانے والی رقم خریداری میں سنجیدگی ظاہر کرنے کی غرض سے دی جاتی ہے، اس لحاظ سے یہ صورت "وعدہ بیع" کی ہے، اور اس طریقے سے پیشگی (advance) رقم دے کر بعد میں باہمی رضامندی سے کسی بھی قیمت پر سودا کرنا شرعا درست ہے۔
البتہ اگر شروع ہی میں خرید و فروخت کا حتمی سودا سمجھ کر کیا جاتا ہو، تو چونکہ اس وقت اس کی حتمی قیمت معلوم نہیں ہے، اس لیے اس صورت میں شروع میں ہی خرید و فروخت کا حتمی سودا کرنا شرعا درست نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
فقه البیوع: (77/1، ط: مکتبة معارف القرآن)
لا ينعقد البيع بصيغة تتمحض للاستقبال، مثل قولنا "سوف أبيعك كذا" أو "سوف أشترى منك كذا" وإنما تنبئ هذه الصيغة عن الوعد بإنجاز البيع في المستقبل، وليس بيعاً.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی