سوال:
اگر جائیداد کی تقسیم کے وقت بیٹیاں اپنی رضامندی سے کہہ دیں کہ ہمیں زمین میں سے حصہ نہیں چاہیے، بلکہ ہماری رضا مندی سے صرف بھائیوں میں تقسیم کر دی جائیں تو کیا یہ اسلام کے رو سے ٹھیک ہے؟
جواب: واضح رہے کہ شریعت کی طرف سے وراثت ایک لازمی حق ہے، جو کہ وارث کے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی ملکیت میں شامل ہو جاتا ہے، لہذا سوال میں پوچھی گئی صورت میں محض بہنوں کے زبانی کہنے سے کہ "ہم نے اپنا حصہ معاف کیا" ان کا حق ساقط نہیں ہوگا۔ ہاں! ترکہ تقسیم ہوجانے اور بیٹیوں کے اپنے حصے پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اپنا حصہ کسی دوسرے وارث یا کسی اور کو دینا چاہیں تو ایسا کرنا شرعاً جائز اور معتبر ہوگا۔
واضح رہے کہ خاندانی یا معاشرتی دباؤ کی وجہ سے کسی وارث سے اس کا حصہ معاف کروا لینا، جیسا کہ ہمارے ہاں بعض علاقوں میں معاشرتی اور خاندانی دباؤ کی وجہ سے بہنیں اپنا حصہ بھائیوں کو معاف کر دیتی ہیں، ایسا کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، لہذا ایسی صورت میں بہنوں کے معاف کرنے کے باوجود وہ حصہ ان کی ملیکت میں برقرار رہے گا، بھائیوں کا اس پر قبضہ کرنا شرعا حرام اور ظلم شمار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تکملة رد المحتار: (505/7، ط: سعید)
"الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".
الأشباہ و النظائر: (ما یقبل الاسقاط من الحقوق، ص: 309، ط: قدیمی)
"لَوْ قَالَ الْوَارِثُ: تَرَكْتُ حَقِّي لَمْ يَبْطُلْ حَقُّهُ؛ إذْ الْمِلْكُ لَا يَبْطُلُ بِالتَّرْك".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی