سوال:
میرے قربانی سے متعلق جند سوالات ہیں:
۱) ایک مالدار آدمی قربانی کے پیسے ایک فقیر کو دیتا ہے کہ میری طرف سے میرے لیے قربانی کرو، تو کیا وہ ان پورے پیسوں سے قربانی کرے گا یا ان پیسوں سے کچھ بچ جائے تو کیا اسے استعمال کرسکتا ہے؟
۲) اگر ایک مالدار یا غریب شخص قربانی کے لیے کچھ رقم متعین کرکے رکھ لے، لیکن قربانی کا جانور یا حصہ ان پیسوں سے کم پیسوں پر مل جائے تو بقایا پیسوں کا کیا حکم ہے؟
جواب: (1)۔ مالک نے چونکہ قربانی کی غرض سے ہی پیسے دیے ہیں، اس لیے وہ پوری رقم قربانی پر خرچ کی جائے، اگر پھر بھی کچھ رقم بچ جائے تو اصل مالک کو بتایا جائے کہ اتنی رقم بچ گئی ہے، اگر وہ اجازت دیدے تو اس رقم کو ذاتی استعمال میں لایا جاسکتا ہے، مالک کی صریح اجازت کے بغیر یہ رقم ذاتی استعمال میں نہیں لائی جاسکتی۔
(2) بقایا پیسے وہ خود استعمال کرسکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الدار قطني: (رقم الحديث: 2886، ط: مؤسسة الرسالة)
ثنا أبو العباس الفضل بن أحمد بن منصور الزبيدي جار البعراني ، نا عبد الأعلى بن حماد ، نا حماد بن سلمة، عن علي بن زيد بن جدعان ، عن أبي حرة الرقاشي ، عن عمه ، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل مال امرئ مسلم إلا عن طيب نفس.
المبسوط للسرخسي: (160/11، ط: مطبعة السعادة)
النقود لا يتعين بالتعيين.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی