سوال:
میرا سوال یہ ہے کہ میرے والد صاحب نے مجھے کچھ نقد رقم دی ہے کہ یہ آپ کی ہوئی۔ یہ رقم حرام طریقے سے کمائی ہوئی ہےتو کیا والد سے یہ رقم لینا جائز ہے اور کیا اس رقم سے میری قربانی کرنا جائز ہوگا یا اس کو میں دوسرے کاموں میں خرچ کرسکتا ہوں؟.رقم نصاب سے اوپر ہے۔
جواب: اگر آپ کو یقینی طور پر معلوم ہو کہ یہ رقم ناجائز اور حرام طریقے سے حاصل کی گئی ہے تو اس رقم سے قربانی کرنا یا اپنے کسی اور استعمال میں لانا شرعاً جائز نہیں ہے، بلکہ اگر اس رقم کا اصل مالک معلوم ہو تو اسے واپس کرنا لازم ہے، جب کہ مالک معلوم نہ ہونے کی صورت میں ثواب کی نیت کے بغیر کسی مستحق کو دیدی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (المائدہ: الآیة: 90- 91)
یٰأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْأنْصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
فقه البیوع: (1052/2)
والمال المغصوب وما في حکمه مثل ما قبضه الإنسان رشوة أو سرقة أو بعقد باطل شرعاً لا یحل له الانتفاع به، ولا بیعه ولا ھبته، ولا یجوز لأحد یعلم ذلك أن یأخذہ منه شراء أو ھبة أو إرثاً، ویجب علیه أن یردہ إلی مالکه فإن تعذر ذلك وجب علیه أن یتصدق به عنه الخ
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی