سوال:
مفتی صاحب! میرے اوپر قربانی واجب نہیں، البتہ میں نفل قربانی کرنا چاہتا ہوں، سوال یہ ہے کہ عید کے دنوں میں نفل قربانی کرنا زیادہ افضل ہوگا یا نفل قربانی کی رقم فلسطین میں صدقہ کرنا زیادہ افضل ہوگا ؟ رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ نفلی صدقات و خیرات کی افضلیت موقع و محل کے اعتبار سے بدلتی رہتی ہے۔ سوال میں ذکر کردہ دونوں عمل ہی باعثِ فضیلت اور باعثِ ثواب ہیں۔ تاہم نفلی قربانی چونکہ عید الاضحیٰ کے ایام کے ساتھ خاص ہے اور ان ایام کے علاوہ یہ فضیلت حاصل نہیں ہو سکتی، اس لیے قربانی کے ایام میں نفلی قربانی زیادہ افضل معلوم ہوتی ہے۔
چنانچہ أم المؤمنین عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یوم النحر (دسویں ذی الحجہ) کو ابن آدم کا کوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں، اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنی سینگ، کھر اور بالوں(جوں کا توں) سمیت آئے گا، اور بیشک زمین پر خون گرنے سے پہلے اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک مقام پیدا کر لیتا ہے، پس اپنے دل کو قربانی سے خوش کرو“۔ (سنن ابن ماجه، حدیث نمبر: 3126)
نیز آج کل بعض متعبر و مستند رفاہی ادارے فلسطین میں وقف قربانی کا انتظام بھی کرتے ہیں، اگر آپ ان کے ذریعہ فلسطین میں وقف قربانی میں حصہ ڈال لیں تو ان شاءاللّٰہ آپ کو نفلی قربانی کے ساتھ ساتھ صدقہ کا بھی اجر و ثواب ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(سنن ابن ماجہ،حدیث:3126)
عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " مَا عَمِلَ ابْنُ آدَمَ يَوْمَ النَّحْرِ عَمَلًا أَحَبَّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هِرَاقَةِ دَمٍ، وَإِنَّهُ لَتَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقُرُونِهَا وَأَظْلَافِهَا وَأَشْعَارِهَا، وَإِنَّ الدَّمَ لَيَقَعُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَكَانٍ قَبْلَ أَنْ يَقَعَ عَلَى الْأَرْضِ، فَطِيبُوا بِهَا نَفْسًا ".
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی