سوال:
مفتی صاحب! جانور کا کان یا دم کٹا ہوا ہو تو مفتیٰ بہ قول کے مطابق ایک تہائی عیب مانع میں داخل ہوگا یا ایک تہائی سے زیادہ صرف عیب مانع ہے؟ تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ جانور کا کان یا دم اگر ایک تہائی یا ایک تہائی سے کم کٹا ہو تو وہ عیب مانع میں داخل نہیں اور یہی ظاہر الروایہ کی عبارت ہے، چنانچہ مشائخ نے اسی قول پر فتوی دیا ہے اور مفتیٰ بہ قول کے مطابق ایک تہائی سے زیادہ عیب مانع شمار ہوگا، اسی قول کو جواہر الفقہ میں جلد 6 صفحہ 326 پر، فتاوی دارالعلوم کراچی میں جلد 5 صفحہ 415 پر، آپ کے مسائل اور ان کا حل میں جلد 5 صفحہ 437 پر، فتاوی دارالعلوم زکریا میں جلد 6 صفحہ 365 پر اور فتاویٰ قاسمیہ میں جلد 22 صفحہ 428 پر اختیار کیا گیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (كتاب الأضحية، 51/9، ط: رشیدیة)
ﻭاﺧﺘﻠﻒ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﺑﻴﻦ اﻟﻘﻠﻴﻞ ﻭاﻟﻜﺜﻴﺮ ﻓﻌﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ - ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻭاﻳﺎﺕ، ﻭﺭﻭﻯ ﻣﺤﻤﺪ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ - ﻋﻨﻪ ﻓﻲ اﻷﺻﻞ ﻭﻓﻲ اﻟﺠﺎﻣﻊ ﺃﻧﻪ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺫﻫﺐ اﻟﺜﻠﺚ ﺃﻭ ﺃﻗﻞ ﺟﺎﺯ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺃﻛﺜﺮ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ، ﻭاﻟﺼﺤﻴﺢ ﺃﻥ اﻟﺜﻠﺚ ﻭﻣﺎ ﺩﻭﻧﻪ ﻗﻠﻴﻞ ﻭﻣﺎ ﺯاﺩ ﻋﻠﻴﻪ ﻛﺜﻴﺮ، ﻭﻋﻠﻴﻪ اﻟﻔﺘﻮﻯ، ﻛﺬا ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭﻯ ﻗﺎﺿﻲ ﺧﺎﻥ.
المبسوط للسرخسي: (كتاب الأضحية، 20/12، ط: رشیدیة)
ﻗﺎﻝ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻤﻘﻄﻮﻉ ﺑﻌﺾ ﺫﻟﻚ ﻓﻔﻲ ﻇﺎﻫﺮ اﻟﺮﻭاﻳﺔ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ - ﺭﺿﻲ اﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻋﻨﻪ - ﺇﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﻤﻘﻄﻮﻉﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ اﻟﺜﻠﺚ ﻻ ﻳﺠﺰﺋﻪ، ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ اﻟﺜﻠﺚ، ﺃﻭ ﺃﻗﻞ ﻳﺠﺰﺋﻪ.
بدائع الصنائع: (كتاب التضحية، 314/6، 315، ط: رشیدیة)
ﻭاﺧﺘﻠﻒ ﺃﺻﺤﺎﺑﻨﺎ ﻓﻲ اﻟﺤﺪ اﻟﻔﺎﺻﻞ ﺑﻴﻦ اﻟﻘﻠﻴﻞ ﻭاﻟﻜﺜﻴﺮ ﻓﻌﻦ ﺃﺑﻲ ﺣﻨﻴﻔﺔ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ - ﺃﺭﺑﻊ ﺭﻭاﻳﺎﺕ، ﺭﻭﻯ ﻣﺤﻤﺪ - ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ - ﻋﻨﻪ ﻓﻲ اﻷﺻﻞ، ﻭﻓﻲ اﻟﺠﺎﻣﻊ اﻟﺼﻐﻴﺮ ﺃﻧﻪ ﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺫﻫﺐ اﻟﺜﻠﺚ ﺃﻭ ﺃﻗﻞ ﺟﺎﺯ ﻭﺇﻥ ﻛﺎﻥ ﺃﻛﺜﺮ ﻣﻦ اﻟﺜﻠﺚ ﻻ ﻳﺠﻮﺯ.....
ﻭﺃﻣﺎ ﻭﺟﻪ ﺭﻭاﻳﺔ اﻋﺘﺒﺎﺭ اﻟﺜﻠﺚ ﻛﺜﻴﺮا ﻓﻠﻘﻮﻝ اﻟﻨﺒﻲ - ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ - ﻓﻲ ﺑﺎﺏ اﻟﻮﺻﻴﺔ "اﻟﺜﻠﺚ ﻭاﻟﺜﻠﺚ ﻛﺜﻴﺮ" ﺟﻌﻞ - ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺼﻼﺓ ﻭاﻟﺴﻼﻡ - اﻟﺜﻠﺚ ﻛﺜﻴﺮا ﻣﻄﻠﻘﺎ، ﻭﺃﻣﺎ ﻭﺟﻪ ﺭﻭاﻳﺔ اﻋﺘﺒﺎﺭﻩ ﻗﻠﻴﻼ ﻓﺎﻋﺘﺒﺎﺭﻩ ﺑﺎﻟﻮﺻﻴﺔ؛ ﻷﻥ اﻟﺸﺮﻉ ﺟﻮﺯ اﻟﻮﺻﻴﺔ ﺑاﻟﺜﻠﺚ ﻭﻟﻢ ﻳﺠﻮﺯ ﺑﻤﺎ ﺯاﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﺜﻠﺚ ﻓﺪﻝ ﺃﻧﻪ ﺇﺫا ﻟﻢ ﻳﺰﺩ ﻋﻠﻰ اﻟﺜﻠﺚ ﻻ ﻳﻜﻮﻥ ﻛﺜﻴﺮا.
فتاویٰ دارالعلوم کراچی: (امداد السائلین): (کتاب الأضحیة، 415/5، ط: ادارۃ المعارف کراچی)
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی