سوال:
یہ کیسے پتا چلے گا کہ کونسا جیلاٹین حلال ہے اور کونسا حرام؟ جو پروڈکٹس بازار میں ملتی ہیں، ان کے بارے ميں يہ پتا نہیں ہوتا کہ یہ حرام ہیں یا حلال تو اس بارے میں کیسے فیصلہ کریں گے؟
جواب: واضح رہے کہ اگر جیلاٹین نباتات سے حاصل کیا گیا ہو تو وہ حلال ہے، لیکن عموماً جیلاٹین جانور کی کھال اور ہڈی میں موجود کولیجین (Collagen) سے حاصل کیا جاتا ہے، جس میں اصل حرمت (یعنی اس کا حرام ہونا) ہے، لہذا جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین یا غالب گمان نہ ہوجائے (یعنی اسے شرعی طریقہ سے ذبح کردہ حلال جانور سے حاصل کیا جائے) یا اس پر کوئی واضح قرینہ نہ پایا جائے، تب تک کسی غیر مسلم ملک میں بنے ہوئے جیلاٹین اور اس پر مشتمل مصنوعات (products) کا کھانا ممنوع ہوگا، البتہ مسلمان ممالک میں بننے والے جیلاٹین کے بارے میں چونکہ حلت کا قرینہ موجود ہے، لہذا مسلمان ملک میں بننے والے جیلاٹین اور اس پر مشتمل مصنوعات (products) کو حلال سمجھا جائے گا، جب تک اس کے حرام طریقے سے حاصل ہونے کا یقین نہ ہوجائے، البتہ اس صورت میں بھی اگر کسی دلیل کی بنیاد پر شبہ پیدا ہوجائے تو ایسے جیلاٹین کے استعمال سے بچنا بہتر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 1929، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدثني الوليد بن شجاع السكوني. حدثنا علي بن مسهر عن عاصم، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم. قال:
قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم (إذا أرسلت كلبك فاذكر اسم الله. فإن أمسك عليك فأدركته حيا فاذبحه. وإن أدركته قد قتل ولم يأكل منه فكله. وإن وجدت مع كلبك كلبا غيره وقد قتل فلا تأكل. فإنك لا تدري أيهما قتله. وإن رميت بسهمك فاذكر اسم الله. فإن غاب عنك يوما فلم تجد فيه إلا أثر سهمك. فكل إن شئت. وإن وجدته غريقا في الماء، فلا تأكل).
تكملة فتح الملهم: (494/3، ط: مكتبة دار العلوم كراتشى)
علله النبي صلى الله عليه وسلم في الرواية الآتية بقوله : "فإنك لا تدرى الماء قتله أو سهمك" : يؤخذ منه أن ما تردد بين سببين أحدهما مبيح والآخر محرم، فالحكم للمحرم.
الهداية: (364/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
قال: "ويقبل في المعاملات قول الفاسق، ولا يقبل في الديانات إلا قول العدل". ووجه الفرق أن المعاملات يكثر وجودها فيما بين أجناس الناس، فلو شرطنا شرطا زائدا يؤدي إلى الحرج فيقبل قول الواحد فيها عدلا كان أو فاسقا كافرا أو مسلما عبدا أو حرا ذكرا أو أنثى دفعا للحرج. أما الديانات فلا يكثر وقوعها حسب وقوع المعاملات فجاز أن يشترط فيها زيادة شرط، فلا يقبل فيها إلا قول المسلم العدل؛ لأن الفاسق متهم والكافر لا يلتزم الحكم فليس له أن يلزم المسلم، بخلاف المعاملات؛ لأن الكافر لا يمكنه المقام في ديارنا إلا بالمعاملة. ولا يتهيأ له المعاملة إلا بعد قبول قوله فيها فكان فيه ضرورة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی