سوال:
میرے والد صاحب نے آخری وقت میں وصیت کی تھی کہ میری اور والدہ صاحبہ کی طرف سے خوبصورت جانور لے کر قربانی کرنی ہے، میں صاحب استطاعت ہوں، پوچھنا یہ ہے کہ چونکہ وصیت ہے تو کیا سات حصوں والے جانور میں ان کا حصہ رکھ سکتے ہیں؟ وضاحت فرمائیں
جواب: جس شخص نے مرنے سے پہلے قربانی کی وصیت کی ہو اور اپنی ملکیت میں اتنا مال چھوڑا ہو کہ اس کی تجہیز و تکفین کے مناسب اخراجات اور قرضہ جات کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال کے تہائی حصہ (1/3) سے قربانی کی جاسکے، تو اس کی طرف سے وصیت کے مطابق قربانی کرنا واجب ہے، لہذا مرحوم کے لیے ایک چھوٹا جانور یا کسی بڑے جانور میں ایک حصہ رکھا جائے، تو اس کی طرف سے قربانی ادا ہو جائے گی، اور اس قربانی کا گوشت فقراء میں صدقہ کرنا واجب ہے۔
البتہ اگر کوئی وارث اپنے مرحوم والدین کی طرف سے قربانی کی رقم اپنی جیب سے ادا کر دے تو اس کی طرف سے یہ محض تبرع اور احسان ہے جو کہ باعث اجر و ثواب ہے، اس قربانی کا ثواب مرحوم والدین کو پہنچے گا اور اس قربانی کا گوشت وارث کی ملکیت ہوگا، جیسے اپنی قربانی کے گوشت میں تصرف کیا جاتا ہے، ویسے ہی وہ اس قربانی کے گوشت میں تصرف کرے گا۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ اپنی رقم سے اپنے والدین کی طرف سے دو چھوٹے جانور قربان کر سکتے ہیں یا بڑے جانور میں دو حصے بھی رکھ سکتے ہیں، اس کا ثواب آپ کے مرحوم والدین کو پہنچے گا اور اس گوشت میں آپ کو تصرف کا اختیار ہوگا، چاہے خود استعمال کریں، چاہے اعزاء و اقارب اور غرباء میں تقسیم کر دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (كتاب الأضحية، 326/6، ط: دار الفكر- بيروت)
"من ضحى عن الميت يصنع كما يصنع في أضحية نفسه من التصدق والأكل والأجر للميت والملك للذابح. قال الصدر: والمختار أنه إن بأمر الميت لا يأكل منها وإلا يأكل بزازية".
رد المحتار: (كتاب الأضحية، 335/6، ط: دار الفكر- بيروت)
"(قوله: وعن ميت) أي لو ضحى عن ميت وارثه بأمره ألزمه بالتصدق بها وعدم الأكل منها، وإن تبرع بها عنه له الأكل لأنه يقع على ملك الذابح والثواب للميت، ولهذا لو كان على الذابح واحدة سقطت عنه أضحيته كما في الأجناس. قال الشرنبلالي: لكن في سقوط الأضحية عنه تأمل اه. أقول: صرح في فتح القدير في الحج عن الغير بلا أمر أنه يقع عن الفاعل فيسقط به الفرض عنه وللآخر الثواب فراجعه".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی