سوال:
ایک شخص نے اپنی زمین کا کچھ حصہ مسجد کے لیے وقف کیا اور عرصہ دراز سے اس موقوفہ زمین پر مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں کچھ کام نہیں ہوا، ابھی واقف خود اس موقوفہ زمین پر مسجد کے بجائے لڑکیوں کا مدرسہ تعمیر کروانا چاہتا ہے اور موقوفہ زمین سے سو میٹر کے فاصلے پر دونوں جانب دو مساجد اور ہیں، علاقہ میں لڑکیوں کے مدرسہ کی بہت ضرورت ہے تو کیا واقف اپنی نیت بدل سکتا ہے اور وہ زمین جو مسجد کے لیے واقف نے وقف کی ہے اب وہ واقف خود اس زمین پر مدسہ بنا سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ جو زمین مسجد کے لیے ایک مرتبہ وقف کردی جائے، وہ وقف کرنے والے کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد واقف کے لیے اس زمین کو بیچنا یا وقف کردہ مصرف کے علاوہ کسی اور مصرف میں استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا ہے۔
سوال میں ذکر کردہ صورت میں چونکہ زمین مسجد کے لیے وقف کردی گئی ہے، لہذا اس زمین پر اب مدرسہ بنانا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (351/4، ط: دار الفکر)
(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن)
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك.
و فيه أيضاً: (385/4، ط: دار الفکر)
(و) جاز (شرط الاستبدال به) أرضا أخرى حينئذ (أو) شرط (بيعه ويشتري بثمنه أرضا أخرى إذا شاء فإذا فعل صارت الثانية كالأولى في شرائطها.
(قوله: وجاز شرط الاستبدال به إلخ اعلم أن الاستبدال على ثلاثة وجوه: ... والثالث: أن لا يشرطه أيضا ولكن فيه نفع في الجملة وبدله خير منه ريعا ونفعا، وهذا لا يجوز استبداله على الأصح المختار كذا حرره العلامة قنالي زاده في رسالته الموضوعة في الاستبدال.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی