سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص ایک جگہ قربانی کا حصہ ڈالتا ہے، پیسے دے دیتا ہے اور بعد میں کسی وجہ سے پیسے واپس لے لیتا ہے کہ میں دوسری جگہ حصہ ڈال دوں گا، کیا ایسا کرنا درست ہے؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں اگر قربانی کے لیے جانور اب تک نہیں خریدا گیا ہے، صرف پیسے جمع کیے گئے ہیں تو اس صورت میں مذکورہ شخص کے لیے اپنے حصہ کے پیسے واپس لے کر دوسری جگہ حصہ ڈالنا جائز ہے، البتہ بلا وجہ ایسا کرنا اخلاقاً مناسب نہیں ہے۔
اور اگر قربانی کے لیے جانور خرید لیا گیا ہے، اس کے بعد مذکورہ شخص اپنے حصہ کے پیسے لے کر دوسری جگہ حصہ ڈالتا ہے تو اس میں یہ تفصیل ہے کہ اگر اس شخص پر قربانی واجب ہے تو ذبح سے پہلے اس کے لیے اپنے حصہ کے پیسے واپس لے کر دوسری جگہ حصہ ڈالنا جائز ہے، اور اگر اس پر قربانی کرنا واجب نہیں ہے تو چونکہ جانور خریدنے کی وجہ سے اس کا حصہ اس جانور میں متعین ہو گیا ہے، لہذا اب اس کے لیے اپنے حصہ کی رقم واپس لینا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (321/9، ط: سعيد)
وفقير شراها لها لوجوبها عليه بذلك حتى يمتنع عليه بيعها
العناية شرح الهداية: (516/9، ط: دار الفکر)
وهذا الذي ذكره من الأصل يوافق ما ذكره شيخ الإسلام - رحمه الله - أن المشتري إذا كان موسرا لا تصير واجبة بالشراء بنية الأضحية باتفاق الروايات، وإن كان معسرا ففي ظاهر الرواية عن أصحابنا - رحمهم الله - تجب. وروى الزعفراني عن أصحابنا أنها لا تجب وهو رواية النوادر.
کفایت المفتی: (192/8، ط: دار الاشاعت)
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی