عنوان: بیرون ملک مقیم شخص کا پاکستان میں قربانی کرنے کا حکم، نیز قربانی کی قیمت بیرون ملک کے حساب سے ہوگی یا جس ملک میں قربانی کی جا رہی ہے وہاں کے حساب سے ہوگی؟ (10624-No)

سوال: اگر کوئی آدمی کینیڈا یا امریکہ میں رہتا ہو اور وہ قربانی پاکستان میں کرنا چاہتا ہو تو اس کے کیا اصول ہیں؟ کیا شرعا اس میں کوئی قباحت ہے؟ نیز وہاں کے آمدن اور پاکستان میں قربانی کی قیمتوں میں فرق ہوتا ہے تو قربانی وہاں کے آمدن کے حساب سے کرنی ہوگی یا پاکستانی قیمتوں کے حساب سے کرنی ہوگی؟

جواب: 1) دوسرے ملک میں رقم بھیج کر قربانی کرنا جائز ہے، البتہ اس میں دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
١) دونوں ملکوں میں قربانی کے جو ایام مشترکہ ہوں، ان ایام میں قربانی کی جائے، اگر کسی ایک ملک میں بھی قربانی کا دن نہیں ہوگا، تو قربانی ادا نہیں ہوگی۔
مثلا: بیرون ملک 10 ذی الحجہ ہو اور پاکستان میں 9 ذی الحجہ ہو، تو اس دن قربانی ادا نہیں ہوگی اور اگر بیرون ملک میں 10 ذی الحجہ ہو، پاکستان میں 11 ذی الحجہ ہو، تو چونکہ یہ دن دونوں ملکوں میں قربانی کا مشترکہ دن ہے، لہذا اس دن قربانی جائز ہوگی۔
٢) جس جگہ قربانی کی جا رہی ہے، اگر وہاں عید کی نماز ہوتی ہو( یعنی وہ شہر ہو، گاؤں دیہات نہ ہو) تو اس جگہ عید کی نماز ہونے کے بعد قربانی کی جائے، البتہ اگر شہر میں مساجد کے نمازِ عید کے اوقات مختلف ہوں، تو سب سے پہلے جہاں عید کی نماز ہوتی ہو، اس کا اعتبار ہوگا، وہاں نماز ہو جانے کے بعد قربانی کی جا سکتی ہے۔
2) چونکہ صاحب نصاب پر ایک قربانی کرنا واجب ہے، یعنی ایک چھوٹا جانور یا بڑے جانور میں ایک ساتواں حصہ، پھر چاہے وہ قربانی کہیں بھی کی جائے، قربانی ادا ہو جائے گی، اسے یہ اختیار ہوگا کہ وہ جہاں رہتا ہے، وہاں کی قیمت کا اعتبار کر کے قربانی کرے یا جس ملک میں قربانی کرنا چاہتا ہے، وہاں کی مقامی قیمت کے اعتبار سے قربانی کرے، مقصود قربانی کرنا ہے، خواہ دونوں ملکوں میں قیمت کا فرق ہو، تب بھی قربانی ادا ہو جائے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (الحج، الآیة: 37)
لَنْ يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنْكُمْ ... الخ

بدائع الصنائع: (75/5)
''وإن كان الرجل في مصر، وأهله في مصر آخر، فكتب إليهم أن يضحوا عنه روي عن أبي يوسف أنه اعتبر مكان الذبيحة، فقال: ينبغي لهم أن لايضحوا عنه حتى يصلي الإمام الذي فيه أهله، وإن ضحوا عنه قبل أن يصلي لم يجزه، وهو قول محمد - عليه الرحمة -. وقال الحسن بن زياد: انتظرت الصلاتين جميعاً، وإن شكوا في وقت صلاة المصر الآخر انتظرت به الزوال، فعنده لا يذبحون عنه حتى يصلوا في المصرين جميعاً، وإن وقع لهم الشك في وقت صلاة المصر الآخر لم يذبحوا حتى تزول الشمس، فإذا زالت ذبحوا عنه.
(وجه) قول الحسن: أن فيما قلنا اعتبار الحالين: حال الذبح وحال المذبوح عنه، فكان أولى. ولأبي يوسف ومحمد رحمهما الله أن القربة في الذبح، والقربات المؤقتة يعتبر وقتها في حق فاعلها لا في حق المفعول عنه، ويجوز الذبح في أيام النحر نهرها ولياليها؛ وهما ليلتان: ليلة اليوم الثاني وهي ليلة الحادي عشر، وليلة اليوم الثالث وهي ليلة الثاني عشر، ولا يدخل فيها ليلة الأضحى وهي ليلة العاشر من ذي الحجة؛ لقول جماعة من الصحابة -رضي الله عنهم -: أيام النحر ثلاثة، وذكر الأيام يكون ذكر الليالي لغة، قال الله عز شأنه في قصة زكريا عليه الصلاة والسلام: ﴿ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا﴾ [آل عمران: 41] وقال عز شأنه في موضع آخر: ﴿ثَلٰثَ لَيَالٍ سَوِيًّا﴾ [مريم: 10] والقصة قصة واحدة، إلا أنه لم يدخل فيها الليلة العاشرة من ذي الحجة؛ لأنه استتبعها النهار الماضي وهو يوم عرفة؛ بدليل أن من أدركها فقد أدرك الحج، كما لو أدرك النهار وهو يوم عرفة، فإذا جعلت تابعةً للنهار الماضي لا تتبع النهار المستقبل، فلا تدخل في وقت التضحية، وتدخل الليلتان بعدها، غير أنه يكره الذبح بالليل؛ لا لأنه ليس بوقت للتضحية، بل لمعنى آخر ذكرناه في كتاب الذبائح، والله عز شأنه أعلم''.

رد المحتار: (318/6، ط: سعید)
فلو كانت في السواد والمضحي في المصر جازت قبل الصلاة، وفي العكس لم تجز قهستاني.

البحر الرائق: (200/8، ط: دار الكتاب الإسلامي)
"لو كانت في السواد، والمضحي في المصر يجوز كما انشق الفجر، وفي العكس لا يجوز إلا بعد الصلاة وحيلة المصري إذا أراد التعجيل أن يبعث بها إلى خارج المصر في موضع للمسافر أن يقصر فيضحي فيه كما طلع الفجر لأن وقتها من طلوع الفجر، وإنما أخرت في حق المصر لما ذكرنا".

الجوهرة النيرة: (کتاب الأضحية، ص: 218، ط: مکتبة امدادیة ملتان)
"الأضحية إراقة الدم من النعم دون سائر الحيوان، والدليل على أنها الإراقة أنه لو تصدق بعين الحيوان لم يجز، والصدقة بلحمها بعد الذبح مستحب وليس بواجب حتى لو لم يتصدق به جاز....قال - رحمه الله - (الأضحية واجبة)........ (يذبح عن كل واحد منهم شاة) شرط الذبح حتى لو تصدق بها حية في أيام النحر لا يجوز لأن الأضحية الإراقة.قوله: (أو يذبح بدنة أو بقرة عن سبعة) ، والبدنة، والبقرة تجزئ كل واحدة منهما عن سبعة إذا كانوا كلهم يريدون بها وجه الله تعالى".

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاءالاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 945 Jun 14, 2023
beron mulk muqeem shakhs ka pakistan me / mein qurbani karne ka hokom /hokum,,neiz qurbani ki qeemat beron mulk k hisab se / say hogi ya jis mulk me qurbni ki jarahi hai waha k hisab se hogi?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Qurbani & Aqeeqa

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.