سوال:
مفتی صاحب! اگر ہم کسی ضرورت مند فرد/ ادارے کو اپنی واجب قربانی کے پیسے دے دیں کہ وہ ہماری طرف سے قربانی کر دے اور گوشت اپنے استعمال میں لے آئے اور بعد میں ہمیں شک ہوجائے کہ اس نے یہ پیسے اپنے استعمال میں خرچ کر دیے ہوں گے تو کیا ہماری قربانی ہو جائے گی؟ اور اگر قربانی نفل ہو تو کیا حکم ہوگا؟
جواب: واضح رہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، جس کی ادائیگی ایسے ادارے یا فرد کے ذریعے کرنی چاہیے کہ جس کے بارے میں قربانی کرنے والے شخص کو مکمل اطمینان ہو کہ وہ ادارہ یا فرد اس رقم کے ذریعے شرعی اصولوں کے مطابق قربانی کرے گا اور اس بارے ميں کسی قسم کی دھوکہ دہی سے کام نہیں لے گا۔
سوال میں پوچھی گئی صورت میں قربانی کرنے کے بعد اگر آپ کے پاس اس ادارے یا فرد کی خیانت کرنے پر شرعی ثبوت نہ ہو تو بلا وجہ ان پر خیانت کا شک کرنا بدگمانی شمار ہوگا، جو کہ سخت گناہ کا کام ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
تفسير القرطبي: (الحجرات، 331/16، ط: دار الكتب المصرية)
الثانية: ثبت في الصحيحين عن أبي هريرة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إياكم والظن فإن الظن أكذب الحديث ولا تحسسوا ولا تجسسوا ولا تناجشوا ولا تحاسدوا ولا تباغضوا ولا تدابروا وكونوا عباد الله إخوانا. لفظ البخاري. قال علماؤنا: فالظن هنا وفي الآية هو التهمة. ومحل التحذير والنهي إنما هو تهمة لا سبب لها يوجبها، كمن يتهم بالفاحشة أو بشرب الخمر مثلا ولم يظهر عليه ما يقتضي ذلك.
الهندية: (564/3، 567، ط: دار الفكر)
ويجوز التوكيل بالبياعات والأشربة والإجارات والنكاح والطلاق والعتاق والخلع والصلح والإعارة والاستعارة والهبة والصدقة والإيداع وقبض الحقوق والخصومات وتقاضي الديون والرهن والارتهان كذا في الذخيرة.
(وأما صفتها) : فإنها من العقود الجائزة الغير اللازمة حتى ملك كل واحد من الوكيل والموكل العزل بدون صاحبه كذا في النهاية ومنه أنه أمين فيما في يده كالمودع فيضمن بما يضمن به المودع ويبرأ به، والقول قوله في دفع الضمان عن نفسه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی