عنوان: والد کی میراث میں سابقہ بیوی کے ساتھ چلے جانے والے بیٹے کا حصہ (10676-No)

سوال: ایک شخص کی پہلی بیوی سے دو بچے (ایک بیٹا اور ایک بیٹی) ہیں، پہلی بیوی کو طلاق دے کر بیٹی اپنے پاس رکھ لی، اس کے بعد اس بیوی اور بیٹے سے تعلق ختم کردیا، ان کے حال و احوال کا کچھ نہیں معلوم۔
دوسری بیوی سے تین بچے (ایک بیٹی اور دو بیٹے) ہیں، اب اس شخص کا انتقال ہوگیا ہے، ترکہ میں سے ایک پراپرٹی بیچی جارہی ہے، اس میں سے دوسری بیوی کے بچے اپنی سوتیلی بہن کو حصہ دینے کے لیے تیار ہیں، کیونکہ وہ ساتھ رہتی ہے، لیکن سوتیلے بھائی کو حصہ نہیں دے رہیں، کیونکہ وہ ساتھ نہیں رہا ہے اور ان کے بقول نہ ہی ہم اسے جانتے ہیں۔
۱) معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا شریعت میں اس لڑکے کا حصہ ہے؟ اگر ہے تو وہ کس کو حوالہ کیا جائے گا، کیونکہ اس کا کچھ پتا نہیں ہے؟ ۲)نیز دیگر ترکہ کس حساب سے ورثاء میں تقسیم ہوگا؟ یہ بھی بتادیں۔

جواب: ۱) مرحوم کی تمام اولاد خواہ پہلی بیوی سے ہو یا دوسری بیوی سے، سب کا اس کے ترکہ میں حصہ ہے۔ تلاش کرنے کے مروجہ تمام ذرائع اختیار کر کے اس بیٹے کو تلاش کرنے کی کوشش کی جائے، اور اس کا شرعی حصہ اس تک پہنچایا جائے۔
تاہم اگر تلاش کے باوجود وہ نہ مل سکے تو اس صورت میں جب تک اس بیٹے کی موت متعین نہیں ہوجاتی، اس وقت تک اس کا حصہ روکا جائے گا، اس کے بعد اگر وہ مل جاتا ہے تو اس کا حصہ اس کو دے دیا جائے گا اور اگر اس کی موت کی کوئی یقینی خبر مل جائے تو اس کی ذاتی ملکیت کا مال اس کے ورثاء میں تقسیم ہوگا، جبکہ والد کی میراث میں سے بطورِ امانت اس کے حصہ کا رکھا ہوا مال والد کے ورثاء کی طرف بقدرِ حصص لوٹا دیا جائے گا۔
۲) مرحوم کی تجہیز و تکفین کے جائز اور متوسط اخراجات، قرض کی ادائیگی اور اگر کسی غیر وارث کے لیے جائز وصیت کی ہو تو ایک تہائی (1/3) میں وصیت نافذ کرنے کے بعد کل جائیداد کو چونسٹھ (64) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے بیوہ کو آٹھ (8)، تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک بیٹے کو چودہ (14) اور دونوں بیٹیوں میں سے ہر ایک بیٹی کو سات (7) حصے ملیں گے۔
اگر فیصد کے اعتبار سے تقسیم کریں تو بیوہ کو %12.5 فیصد حصہ، ہر ایک بیٹے کو %21.875 فیصد حصہ اور ہر ایک بیٹی کو %10.937 فیصد حصہ ملے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 11)
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنثَيَيْنِ ... الخ

و قوله تعالیٰ: (النساء، الایة: 12)
وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّهُنَّ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِن لَّمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ فَإِن كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُم مِّن بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ ... الخ

الھندیة: (كتاب المفقود، 299/2، 300، ط: دار الفکر)
"هو الذي غاب عن أهله أو بلده أو اسره العدو ولا يدرى أحي هو أو ميت، ولايعلم له مكان ومضى علي ذلك زمان، فهو معدوم بهذا الاعتبار، وحكمه: أنه حي في حق نفسه لا تتزوج امرأته، ولا يقسم ماله، ولا تفسخ اجارته، وهو ميت في حق غيره لايرث ممن مات حال غيبته كذا في خزانة المفتين."
ولا يرث المفقود أحدا مات في حال فقده، ومعنى قولنا " لا يرث المفقود أحدا " أن نصيب المفقود من الميراث لا يصير ملكا للمفقود، أما نصيب المفقود من الإرث فيتوقف، فإن ظهر حيا علم أنه كان مستحقا، وإن لم يظهر حيا حتى بلغ تسعين سنة فما وقف له يرد على ورثة صاحب المال يوم مات صاحب المال، كذا في الكافي. وإذا أوصى له توقف الموصى به إلى أن يحكم بموته فإذا حكم بموته يرد المال الموصى به إلى ورثة الموصي، كذا في التبيين.

الدر المختار مع رد المحتار: (296/4، ط: دار الفکر)
(وميت في حق غيره فلا يرث من غيره) حتى لو مات رجل عن بنتين وابن مفقود وللمفقود بنتان وأبناء والتركة في يد البنتين والكل مقرون بفقد الابن واختصموا للقاضي لا ينبغي له أن يحرك المال عن موضعه: أي لا ينزعه من يد البنتين خزانة المفتين
(قوله: أي لا ينزعه من يد البنتين) بل يقضي لهما بالنصف ميراثا ويوقف النصف في أيديهما على حكم ملك الميت، فإن ظهر المفقود حيا دفع إليه، وإن ظهر ميتا أعطي البنتان سدس كل المال من ذلك النصف والثلث الباقي لأولاد الابن للذكر مثل حظ الأنثيين فتح

فتح القدیر: (كتاب المفقود، 149/6، ط: دار الفكر بيروت)
وكذا ذكر الإمام سراج الدين في فرائضه عن نصير بن يحيى أنها مائة سنة لأن الحياة بعدها نادر، ولا عبرة بالنادر. ووري أنه عاش مائة سنة وتسع سنين أو أكثر ولم يرجع عن قوله.
واختار الشيخ الإمام أبو بكر محمد بن حامد أنها تسعون سنة لأن الغالب في أعمار أهل زماننا هذا، وهذا لا يصح إلا أن يقال: إن الغالب في الأعمار الطوال في أهل زماننا أن لا تزيد على ذلك، نعم المتأخرون الذين اختاروا ستين بنوه على الغالب من الأعمار.
والحاصل أن الاختلاف ما جاء إلا من اختلاف الرأي في أن الغالب هذا في الطول أو مطلقا، فلذا قال شمس الأئمة: الأليق بطريق الفقه أن لا يقدر بشيء لأن نصب المقادير بالرأي لا يكون وهذا هو قول المصنف الأقيس إلخ، ولكن نقول: إذا لم يبق أحد من أقرانه يحكم بموته اعتبارا لحاله بحال نظائره، وهذا رجوع إلى ظاهر الرواية.
قال المصنف (والأرفق) أي بالناس (أن يقدر بتسعين) وأرفق منه التقدير بستين. ‌وعندي ‌الأحسن ‌سبعون لقوله - صلى الله عليه وسلم - «أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين» فكانت المنتهى غالبا، وقال بعضهم: يفوض إلى رأي القاضي، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي"

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 201 Jul 10, 2023
walid ki miras me / mein sabqa / sabiqa biwi k sath chaley jane wale bete / betay ka hissa

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Inheritance & Will Foster

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.