سوال:
کچھ ماہ پہلے میرے ڈپارٹمنٹ میں ایک سکھ نوجوان بھرتی ہوا، دو تین ہفتے بعد اس نے آنا چھوڑ دیا، پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کے والد بیمار ہیں اور ہسپتال میں داخل ہیں اور ان کی حالت نازک ہے۔ اس کے کچھ دنوں بعد اس نے بتایا کہ اس کے والد مرگئے۔ اس پورے عرصے میں وہ یہ تاثر دیتا رہا کہ وہ کام پر واپس آئے گا اور وہ رابطہ میں بھی رہا، مگر وہ نہ آیا۔ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ گزرنے کے بعد میں نے اس کو میسیج کیا کہ فوری جلد از جلد آکر اپنے ٹولز اوزار وغیرہ لے جاؤ، ورنہ ہماری ذمہ داری نہیں ہوگی۔ اس نے جواب میں کہا کہ میں کل ہی آرہا ہوں، مگر وہ آج تک نہ آیا اور اس بات کو بھی کئی مہینے گزر چکے ہیں۔ میں نے اپنے متعلقہ مینیجر کو اس بارے میں بتایا اور ان کی اجازت سے وہ ٹولز اپنے گھر لے آیا ہوں اور ابھی تک حفاظت سے رکھے ہیں اور استعمال بھی نہیں کئے ہیں۔ اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ کیا کرنا بہتر ہے؟
تنقیح: محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ کیا آپ کا اس نوجوان سے رابطہ ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اس وضاحت کے بعد آپ کے سوال کا جواب دیا جاسکے گا۔
جواب تنقیح: حضرت! اس کا صرف فون نمبر ہے جس پر رابطہ کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
جواب: پوچھی گئی صورت میں جب اس شخص کا رابطہ نمبر موجود ہے، اور اس سے رابطہ ہوسکتا ہے تو اس سے مزید رابطہ کرکے کہا جائے کہ آپ اپنا سامان (ٹولز، اوزار وغیرہ) لے جائیں یا اپنا پتا بھیج دیں، تاکہ اس پر یہ سامان بھیج دیا جائے، یا اجازت دیدیں کہ یہ سامان آپ کی طرف سے کسی کو دے دیا جائے، پھر اس کی طرف سے جو جواب آئے، اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ حسبِ جواب عمل کرنے سے آپ کا ذمہ بری ہوجائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الهندية: (338/4، ط: دار الفكر بيروت)
وأما حكمها فوجوب الحفظ على المودع وصيرورة المال أمانة في يده ووجوب أدائه عند طلب مالكه، كذا في الشمني.
الموسوعة الفقهية الكويتية: (327/26)
أن يكون مالكا للمال المتصدق به، أو وكيلا عنه، فلا تصح الصدقة من مال الغير بلا وكالة. ومن فعل ذلك يضمن ما تصدق به، لأنه ضيع مال الغير على صاحبه بغير إذنه، يقول التمرتاشي: شرائط صحة الهبة في الواهب: العقل، والبلوغ، والملك. ثم قال: والصدقة كالهبة بجامع التبرع
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی