سوال:
اگر قرض دینے والے نے قرض ڈالر میں دیا ہو تو کیا ڈالر میں ہی لوٹانا ضروری ہے؟ آج کل ڈالر دستیاب نہیں ہے تو کیا روپے میں جتنا فرق آیا ہو جیسے جب قرض لیا تھا تو ڈالر کا ریٹ 180 روپے تھا اور آج 290 روپے کا ریٹ ہے تو کیا ریٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اتنے ہی ڈالر روپے کی کرنسی کی شکل میں دے سکتے ہیں؟ اس کا بھی بتا دیں کہ اگر ڈالر کے علاوہ دوسری کرنسی دستیاب ہو، جیسے برطانیہ کا پاؤنڈ تو کیا اس میں ادا کر سکتے ہیں؟ قرض لینے والا کسی بھی کرنسی کی جنس پر متفق ہے۔
جواب: اصولی طور پر تو شرعی مسئلہ یہی ہے کہ جس کرنسی میں قرض لیا ہو، اسی میں لوٹانا ضروری ہے، البتہ ادائیگی کے وقت باہمی رضامندی سے کسی دوسری کرنسی میں بھی قرضے کی ادائیگی کی جاسکتی ہے، بشرطیکہ ادائیگی والے دن اس کرنسی کی قیمت لگائی جائے، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں ڈالر میں قرض لینے کی صورت میں ادائیگی کے وقت باہمی رضامندی سے روپے یا کسی اور کرنسی میں ادائیگی کی جاسکتی ہے، اس شرط کے ساتھ کہ اسی دن کی قیمت لگائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن أبي داود: (242/5، ط: دار الرسالة العالمیة)
عن ابن عمر، قال: كنت أبيع الإبل بالبقيع، فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه، وأعطي هذه من هذه، فأتيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو في بيت حفصة، فقلت: يا رسول الله، رويدك أسألك، إني أبيع الإبل بالبقيع، فأبيع بالدنانير وآخذ الدراهم، وأبيع بالدراهم وآخذ الدنانير، آخذ هذه من هذه، وأعطي هذه من هذه، فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "لا بأس أن تأخذها بسعر يومها، ما لم تفترقا وبينكما شيء".
الدر المختار مع رد المحتار: (389/2، ط: دار الفکر)
الديون تقضى بأمثالها.
المعاییر الشرعیة: (59، 60)
تصح المبادلة بالعملات الثابتة دینا فی الذمة اذا ادت الی الوفاء بسقوط الدینین محل المصارفة و تفریغ الذمۃ منھما۔ و من صورھا ما یاتی:
۱/۱۰/۲ تطارح (اطفاء) الدینین، بان یکون فی ذمة شخص دنانیر لآخر و للآخر فی ذمة الاول دراھم، فیتفقان علی سعر المبادلة لاطفاء الدین کله او بعضه تبعا للمبالغ، و یطلق علی ھذہ العملیة ایضا (المقاصة).
۲/۱۰/۲ استیفاء الدائن دینه الذی ھو بعملة ما بعملة اخری، علی ان یتم الوفاء فورًا بسعر صرفھا یوم السداد.
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی